Maktaba Wahhabi

162 - 442
اسی ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْن من بعدی،َ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُورِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ)) (سنن ابی داود، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، ح: ۴۶۰۷ وسنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، ح:۴۳۔) ’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو… اور نئے نئے امور سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ لہٰذا آپ کے فرمان: ((مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً)) (صحیح مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ، ح:۱۰۱۷۔) ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا۔‘‘ کو اس حدیث کے سبب کے تناظر میں لیا جائے گا اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان مضر کے ان لوگوں پر صدقہ کی ترغیب دی تھی جو انتہائی شدید ضرورت اور فاقے کی حالت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ اس موقعہ سے ایک شخص چاندی کی ایک تھیلی لے کر آیا اور اس نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا، تو آپ نے فرمایا: ((مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ اَجْرُہَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَاالی یوم القیامۃُ)) (صحیح مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ، ح:۱۰۱۷۔) ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا، اسے اس کا اور اس کے بعد اس کے مطابق عمل کرنے والوں کا قیامت تک اجر و ثواب ملتا رہے گا۔‘‘ جب ہم نے اس حدیث کا سبب اور اس کا مفہوم سمجھ لیا تو معلوم ہوا کہ نیا طریقہ شروع کرنے سے مراد اس کے مطابق عمل شروع کرنا ہے، اسے ایجاد کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ کسی عمل کا حکم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے، لہٰذا اس حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ جو شخص کسی سنت کے مطابق عمل کا آعاز کرے اور لوگ اس میں اس کی اقتدا کریں تو اسے اس سنت کے مطابق عمل کرنے کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کے اجر ثواب کے برابر بھی اجر وثواب ملے گا جو اس کے مطابق عمل کریں گے۔ اس حدیث کے متعین معنی یہی ہیں یا اس حدیث سے مراد اس فعل یا وسیلے کو اختیار کرنا ہے جس کے ساتھ عبادت ادا کی جاسکے اور پھر لوگ بھی اس فعل یا وسیلے کے اختیار کرنے میں اس کی اقتدا کریں، مثلاً: دینی کتب تصنیف کرنا، علم کے ابواب قائم کرنا، دینی مدارس بنانا یہ اور اس طرح کے دیگر کام کرنا جو کسی ایسے کام کے لیے وسیلہ بنیں جو شرعاً مطلوب ہو۔ جب انسان مطلوب شرعی تک پہنچانے والے کسی ایسے وسیلے کو اختیار کرے جس سے شریعت میں منع نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی اس حدیث میں داخل شمارہوگا۔ اگر اس حدیث کے یہ معنی مراد لیے جائیں کہ انسان جو چاہے شریعت میں ایجاد کر سکتا ہے، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں گویا دین اسلام مکمل نہیں ہوا تھا، لہٰذا ہر جماعت کو اپنا اپنا الگ طریقہ اور راستہ اختیار کرنے کی اجازت ہے، اس
Flag Counter