Maktaba Wahhabi

138 - 442
صُدُوْدًا، فَکَیْفَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ثُمَّ جَآئُ وْکَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا، اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَ عِظْہُمْ وَ قُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیْغًا، وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُ وا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا، فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا، ﴾ (النساء: ۶۵) ’’(اے نبی!) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں وہ ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ سرکش (شیطانوں) کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں، حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ ان (شیطانوں) سے کفر کریں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر راستے سے دور ڈال دے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف (رجوع کرو) اور پیغمبر کی طرف آؤ تو تم منافقوں کو دیکھتے ہو کہ وہ تم سے اعراض کرتے اور رک جاتے ہیں، پھر ان کا کیا حال ہوتا ہے جب ان کے اعمال (کی شامت) سے ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو وہ تمہارے پاس بھاگے آتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ! ہمارا مقصود بھلائی اور موافقت تھا۔ ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس کو (خوب) جانتا ہے، لہٰذا تم ان (کی باتوں) کا کچھ خیال نہ کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں۔ اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے وہ اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔ اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھے تھے، اگر تمہارے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)بھی ان کے لیے بخشش طلب کرتے تو یقینا اللہ کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے۔ تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ دلی محسوس نہ کریں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں، تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دعوائے ایمان کرنے والے منافقین کی حسب ذیل نشانیاں بیان کی ہیں: ۱۔ وہ طاغوت کو اپنا حاکم بنانا چاہتے ہیں اور طاغوت سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت، اس ذات سے سرکشی وبغاوت ہے جسے حکم کا اختیار حاصل ہے اور تمام امور جس کی طرف لوٹنے والے ہیں بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ، ﴾ (الاعراف: ۵۴) ’’دیکھو! سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے، اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔‘‘ ۲۔ ان کو جب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس سے روکتے اور اعراض کرتے ہیں۔ ۳۔ جب انہیں اپنی ہی بداعمالیوں کی پاداش میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے کرتوتوں کا
Flag Counter