Maktaba Wahhabi

136 - 442
دیا بلکہ ان کے خلاف قتال کے باوجود انہیں مسلمان قرار دیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس وقت تک ان سے قتال نہیں کیا تھا، جب تک انہوں نے حرام خون نہ بہایا اور مسلمانوں کے مالوں کو لوٹنا شروع نہیں کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ظلم و بغاوت کو ختم کرنے کے لیے ان سے قتال کیا تھا، اس لیے نہیں کہ وہ کافر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے حریم (قابل احترام اشیاء) کو گالی دی نہ ان کے مالوں کو غنیمت قرار دیا۔ یہ لوگ جن کی ضلالت نص اور اجماع سے ثابت ہے، ان کو کافر قرار نہیں دیا گیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قتال کا حکم دیا ہے، تو اختلاف کرنے والی ان جماعتوں کو کیونکر کافر قرار دیا جا سکتا ہے جو بہت سے ایسے مسائل میں حق پر نہ رہ سکے، جن کے بارے میں ان سے زیادہ علم والے لوگ بھی غلطی میں مبتلا ہوگئے تھے؟ لہٰذا ان جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دیں نہ ان کے خون کو حلال سمجھیں گو ان کے بارے میں بدعت ثابت ہو چکی ہو، خصوصاً کافر قرار دینے والا فرقہ جب خود بھی بدعتی ہو اور ہو سکتا ہے کہ اس کی بدعت کافر قرار دئیے جانے والے فرقہ کی بدعت سے بھی زیادہ سخت ہو۔ اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ ان حقائق کے بارے میں جاہل ہوتے ہیں جن میں ان کا باہمی اختلاف ہوتا ہے۔‘‘… آگے لکھا ہے: ’’اگر مسلمان قتال یا تکفیر میں تاویل سے کام لے رہا ہو تو اس کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔‘‘ نیز فرمایا: ’’علماء کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ابلاغ سے پہلے بھی اس کا حکم بندوں کے بارے میں ثابت ہے یا نہیں؟ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کے مذہب میں اس کے بارے میں تین اقوال ہیں اور صحیح مذہب یہی ہے، جس پر یہ ارشاد باری تعالیٰ دلالت کررہا ہے۔[1] ﴿وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (الاسراء: ۱۵) ’’اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ (النساء: ۱۶۵) ’’(سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا تھا تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے الزام دھرنے کا موقع نہ رہے۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ما اَحَدَ اَحَبُّ اِلَیْہِ الْعُذْرُ مِنَ اللّٰہِ، َمِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ أرسل الرسل مبشرین منذرینَ)) صحیح البخاری، التوحید، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا شخص اغیر من اللّٰه ، ح: ۷۴۶۱ وصحیح مسلم، التوبۃ باب غیرۃ اللّٰه تعالیٰ، ح:۲۷۶۰۔) ’’اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے عذر پسند ہو، اسی وجہ سے اس نے خوشخبری سنانے والوں اور ڈرانے والوںکو بھیجا ہے۔‘‘ خلاصہ کلام یہ کہ وہ شخص جو از راہ جہالت کوئی ایسی بات کہتا یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جو کفر یا فسق ہو، تو وہ جہالت کی وجہ سے معذور ہے، جیسا کہ کتاب وسنت کے دلائل اور اہل علم کے اقوال سے ثابت ہے۔
Flag Counter