Maktaba Wahhabi

135 - 442
مالوں کو حلال سمجھتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شہید کرنے کو تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، اس کے باوجود تاویل کی وجہ سے فقہاء نے خوارج کو کافر قرار نہیں دیا۔ اسی طرح جو شخص بھی اس طرح کی تاویل کی وجہ سے حرام کو حلال قرار دے گا۔ اس کے بارے میں اسی طرح کا موقف اختیار کیا جائے گا۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خوارج کی بدعت کا سبب قرآن مجید کے بارے میں ان کی غلط فہمی ہے اور ان کا مقصد قرآن مجید کی مخالفت نہ تھا لیکن انہوں نے قرآن مجید کا مفہوم ایسا سمجھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے گویا وہ قرآن مجید کی مخالفت کرنا چاہتے ہوں۔ اسی غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے یہ گمان کیا کہ گناہ گاروں کوکافر قرار دینا واجب ہے۔‘‘[1] نیز فرمایا: ’’خوارج نے سنت کی مخالفت کی حالانکہ قرآن مجید نے اتباع سنت کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے مومنوں کو کافر قرار دیا ہے حالانکہ قرآن مجید نے ان سے دوستی کا حکم دیا تھا… اور انہوں نے قرآن مجید کی متشابہ آیات کی ان کے معنی کو پہچانے بغیر،اور علم میں رسوخ نہ ہونے کے باوجود، اتباع سنت کی راہ سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اور قرآن مجید کو سمجھنے والے مسلمانوں کی جماعت کی طرف مراجعت کیے بغیر تاویل کرنا شروع کر دی تھی۔‘‘[2] نیز فرمایا: ’’خوارج کی مذمت اور گمراہی پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، البتہ انہیں کافر قرار دینے میں اختلاف ہے اس سلسلے میں ان کے دو قول مشہور ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر کئی ائمہ انہیں کافر قرار نہیں دیتے۔‘‘[3] ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی ان کو کافر قرار نہیں دیا البتہ انہیں مسلمان مگر ظالم اور سرکش قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اس سلسلے میں میں نے ان کے بہت سے واقعات کسی دوسری جگہ ذکر کیے ہیں۔‘‘[4] نیز فرمایا: ’’دائرۂ دین سے نکل جانے والے خوارج جن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کا حکم دیا تھا، خلفائے راشدین میں سے امیرالمومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف قتال بھی کیا تھا۔ حضرات صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے تمام ائمہ دین کا بھی ان کے خلاف قتال پر اتفاق ہے۔ اس کے باوجود حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ نے انہیں کافر قرار نہیں
Flag Counter