Maktaba Wahhabi

124 - 442
کے گھر والوں کے پاس آکر ان کے سر پر ان کی گھرکی منڈیرپر بیٹھ کر بولتا رہتا ہے۔ اور بعض عربوں کا عقیدہ یہ تھا کہ الو کی صورت میں یہ د رحقیقت مقتول کی روح ہوتی ہے جو پرندہ کی شکل میں الو سے ملتے جلتے ہوتاہے یا الوہی ہوتاہے جب تک مقتول کے ورثاء قاتل کے خاندان والوں سے انتقام نہ لیں یہ پرندہ بول بول کر مقتول کے گھر والوں کو ایذا پہنچاتا رہتا ہے۔ عرب اس کے ساتھ بدشگونی پکڑتے تھے۔ اس لئے جب یہ پرندہ کسی کے گھر پر آکر بیٹھتا اور بولتا تو اس گھرکا مکین یہ کہتا کہ یہ اس لیے بول رہاہے کہ موت اس کے سرپر منڈلا رہی ہے، اس کے بولنے کو لوگ موت کے قریب آنے کی علامت سمجھتے تھے، حالانکہ یہ ایک بالکل باطل بات ہے۔ صفر کے بھی درج ذیل کئی مفہوم بیان کیے گئے ہیں: ٭ اس سے مراد صفر کا مشہور مہینہ ہے۔ عرب اس مہینے سے بدشگونی پکڑا کرتے تھے۔ ٭ یہ پیٹ کی ایک بیماری ہے جو اونٹ کو لاحق ہوتی ہے اور ایک اونٹ سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، لہٰذا عدوی پر اس کا عطف عطف الخاص علی العام کے قبیل سے ہے۔ ٭ ’’صفر‘‘ ماہ صفر ہی ہے اور اس سے مراد امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا ہے، جس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے تھے۔ وہ ماہ محرم کی حرمت کو صفر تک مؤخر کر دیتے تھے اور ایک سال اسے حلال اور دوسرے سال حرام قرار دے دیا کرتے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ راجح مفہوم یہی ہے کہ اس سے مراد ماہ صفر ہے کیونکہ لوگ زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر سے بدشگونی لیا کرتے تھے، حالانکہ تاثیر میں زمانوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں صفر بھی دیگر مہینوں ہی کی طرح ایک مہینہ ہے کہ اس میں خیر بھی مقدر ہے اور شر بھی۔ بعض لوگوں کا معمول ہے کہ وہ جب کسی خاص عمل سے صفر کی پچیس تاریخ کو فارغ ہو جائیں تو وہ اس تاریخ کو اپنے پاس اس طرح لکھ لیتے ہیں: ’’یہ کام صفر خیر کی پچیس تاریخ کو مکمل ہوا تھا۔‘‘ اس کا شمار بدعت کے ساتھ بدعت اور جہالت کے ساتھ جہالت کے علاج کے باب میں ہوتا ہے، ورنہ صفر نہ خیر کا مہینہ ہے اور نہ شرکا۔ اسی لیے بعض سلف نے اس بات کی بھی نفی کی ہے کہ الو کی آواز سن کر یہ کہا جائے: خَیْرًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ ’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو خیر ہوگی۔‘‘ یعنی اس موقع پر کسی خیر وشر کا اظہار نہ کیا جائے، کیونکہ الو بھی اسی طرح بولتا ہے جس طرح دیگر پرندے اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔ یہ چار چیزیں جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل اور صدق عزیمت کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور یہ تمام کی تمام چیزیں اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اس طرح کے امور کے سامنے مسلمان کو کمزوری کا ثبوت نہیں دینا چاہیے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے دل میں ان باتوں کا خیال لائے، تو وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا: ۱۔ یا تووہ ان باتوں پر لبیک کہتے ہوئے کام کرے گا یا نہیں کرے گا اور اس صورت میں گویاکہ اس نے اپنے افعال کو ایک ایسی چیز کے ساتھ معلق کر دیا جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ۲۔ یاوہ ان باتوں پر لبیک کہتے ہوئے کوئی اقدام کرے نہ ان کی پرو اکرے، البتہ اس کے دل میں ان کی وجہ سے کچھ غم و فکر کاداعیہ ضرورپیداہو، اگرچہ یہ صورت پہلی کی نسبت ہلکی ہے، لیکن مسلمان بندہ کو چاہیے کہ وہ ان امور کے کسی داعیہ پر مطلقاً کوئی توجہ نہ دے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی پر اعتماد اور بھروسا رکھے۔
Flag Counter