Maktaba Wahhabi

87 - 871
[اگر تیرا مصحف تیرا رخسار بن کر میرے ہاتھ لگ جائے تو میں اسے’’فمی بشوق‘‘ (ختمِ قرآن کی مذکورہ بالا ترتیب) کے ایک ہی بوسے کے ساتھ ختم کر ڈالوں گا] شیخین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: ((اِقْرَأْ فِيْ سَبْعٍ،وَلَا تَزِدْ عَلیٰ ذٰلِکَ)) [1] [سات دنوں میں قرآن مجید ختم کرو اور اس سے زیادہ (کم دنوں میں ختم) نہ کرو] اس کو ختمِ احزاب کہتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ سید جلیل ابن کاتب صوفی ہر دن رات میں چار چار مرتبہ قرآن ختم کرتے تھے۔[2] بعض علما نے کہا ہے: ’’یمکن حملہ علی مبادي طي اللسان وبسط الزمان‘‘ [اس کو زبان کے لپٹ جانے اور وقت کے پھیل جانے کے اصول پر محمول کرنا ممکن ہے] شیخ موسیٰ رحمہ اللہ صاحبِ شیخ ابو مدین رحمہ اللہ رات دن میں ستر ہزار ختم کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ انھوں نے حجر اسود کو بوسہ دینے کے بعد پڑھنا شروع کیا تھا اور بابِ کعبہ کے سامنے جا کر ختم کیا،اس طرح کہ بعض اصحاب نے حرفاً حرفاً سنا۔اسے امام غزالی رحمہ اللہ نے ‘‘احیاء‘‘ میں اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے’’مرقات‘‘ میں ذکر کیا ہے۔[3] میں کہتا ہوں کہ یہ طی اللسان اور بسطِ زمان کے طریق پر شیخ کی کرامت پر محمول ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس نے ہر سال دو بار قرآن ختم کیا،اس نے حق ادا کر دیا،کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے سال دو ہی مرتبہ جبریل علیہ السلام پر قرآن عرض کیا تھا۔اس لیے انھوں نے’’بستان‘‘ میں کہا ہے: ’’ینبغي للقاریٔ أن یختم في السنۃ مرتین إن لم یقدرعلی الزیادۃ‘‘[4] [قاری کے لائق یہ ہے کہ اگر وہ زیادہ نہ کر سکے تو سال میں دو مرتبہ تو ختمِ قرآن کرے]
Flag Counter