Maktaba Wahhabi

839 - 871
اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کرتا اور اس پر القا کرتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن ایک ایسا معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے،وہ کہتے ہیں کہ اس کے انزال کامعنی ہے کہ ان کلمات و حروف کو ایجاد کرنا،جو اس معنی پر دلالت کرتے ہیں اور لوحِ محفوظ میں اس کا اثبات اسی طرح ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن لفظ ہے تو ان کے نزدیک اس کے انزال کا معنی لوحِ محفوظ میں صرف اس کا اثبات ہے۔ پھر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے کے بارے میں تین قول ہیں : 1۔ لفظ و معنی ہر دو منزل ہیں۔ 2۔ جبریل علیہ السلام خاص معانی لے کر اترے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ معانی سیکھ لیے اور ان کو عربی زبان میں تعبیر کر دیا۔اس قول کے قائل نے درج ذیل فرمانِ باری تعالیٰ کے ظاہر سے دلیل پکڑی ہے: ﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ* عَلٰی قَلْبِکَ 3۔ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر معنی کا القا کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی زبان میں ان الفاظ کے ساتھ ان کو تعبیر کر دیا۔اہلِ آسمان بھی اسے عربی زبان میں پڑھتے ہیں۔اس کے بعد جبریل علیہ السلام نے اسی طرح اس کو نازل کیا۔ اس سلسلے میں اور بھی اقوال ہیں جو تفاسیر،حواشی بیضاوی اور اتقانِ سیوطی رحمہما اللہ وغیرہ میں مذکور ہیں۔بہرحال اس میں راجح مذہب یہ ہے کہ قرآن مجید کلامِ خدا ہے،اس کے لفظ و معنی بھی اس کے ہیں۔جو کچھ پڑھا اور سنا جاتا ہے،سینوں میں محفوظ ہے،مصاحف میں مکتوب ہے اور زبانوں پر پڑھا جاتا ہے،یہ حروف،کلمات اور اصوات سب کلامِ قدیم ہے،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور اسی کی طرف اس کی انتہا ہوتی ہے۔ اہلِ حدیث،جو اہلِ سنت والجماعت کے قد وہ ہیں،کا مختار مذہب یہی ہے۔
Flag Counter