عبداللہ شمسی شہیر بہ ابن الجندی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۶۹ھ) کی ایک ضخیم شرح ہے۔ابن جزری رحمہ اللہ نے لکھا ہے:’’کان شرحہ یتضمن إیضاح شرح الجعبري‘‘[1] انتھیٰ۔[ان کی شرح شرح الجعبری کی ایضاح کو متضمن ہے] اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ الذي ابتدع الإنسان بصنعہ وصورہ…الخ‘‘
21۔ابو القاسم ہبۃ اللہ بن عبدالرحیم البارزی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۲۷ھ) کی شرح۔
22۔یوسف بن ابوبکر معروف بہ ابن خطیب بیت الآبار رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۲۵ھ) کی شرح۔یہ دو ضخیم جلدوں میں ہے۔
23۔المفید في شرح القصید: یہ علم الدین قاسم بن احمد ورقی اندلسی رحمہ اللہ (المتوفی: ۶۶۱ھ) کی شرح ہے۔
24۔الدرۃ الفریدۃ في شرح القصیدۃ: یہ منتخب الدین حسین بن ابو العز بن رشید ہمدانی رحمہ اللہ (المتوفی: ۶۴۳ھ) کی شرح ہے،یہ ایک ضخیم شرح ہے۔اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے:’’الحمد للّٰہ باریٔ الأنام…الخ‘‘
25۔شیخ جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکر سیوطی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۱۱ھ) کی شرح،یہ ممزوج شرح ہے۔
26۔امام بدرالدین حسن بن قاسم معروف بہ ابن ام قاسم مرادی مصری رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۴۹ھ) کی شرح۔
27۔الفریدۃ البارزیۃ في حل القصیدۃ الشاطبیۃ: یہ شیخ ابو عبداللہ مغربی نحوی رحمہ اللہ کی شرح ہے۔اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ ذي الصفات العلیۃ…الخ‘‘
28۔سید عبداللہ بن محمد حسینی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۷۶ھ) کی شرح۔
’’حرز الأماني‘‘ کی شروح میں’’الوجیز‘‘،’’المحصي‘‘،’’جامع الفوائد‘‘ اور’’تبصرۃ المستفید‘‘،جس میں جعبری رحمہ اللہ سے نقول ہیں،جیسی شروح کا بھی نام آتا ہے۔اس میں ایک شرح اور بھی ہے جو’’مصطلح الإشارات‘‘ کے مصنف کی طرف منسوب ہے۔شاطبیہ کی ایک نکت ہے،جو شیخ برہان الدین ابراہیم بن موسیٰ کرکدی مقری شافعی رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۹۳ھ) کی تالیف ہے۔
|