Maktaba Wahhabi

617 - 871
نے تواتر کے لیے یہی نہج مقرر کیا ہے۔قراء اتِ سبعہ میں سے ہر ایک کے لیے تواتر کا دعوی کیا ہے اور وہ صرف ابو عمر،نافع،عاصم،حمزہ،کسائی،ابن کثیر اور ابن عامر رحمہ اللہ علیہم کی قراء تیں ہیں۔انھوں نے قراء اتِ عشرہ کے بارے میں بھی تواتر کا دعوی کیا ہے اور یعقوب،ابو جعفر اور خلف رحمہ اللہ علیہم کی قراء توں کو مذکورہ قراء توں کے ساتھ جمع کیا ہے۔مگر یہ دعوی کسی علمی بنیاد پر نہیں ہے،کیونکہ مذکورہ بالا قراء کی قراء تیں اخبارِ آحاد سے منقول ہیں۔چنانچہ اس فن کو جاننے والے پر ان قراء کی اسانید پوشیدہ نہیں ہیں۔قراء کی ایک جماعت نے ان قراء توں کے متواتر اور آحاد ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔جبکہ قراء اتِ سبعہ میں سے ہر ایک کے تواتر کا ہر کوئی قائل نہیں ہے،چہ جائیکہ وہ قراء اتِ عشرہ کے تواتر کا قائل ہو،بلکہ یہ قول بعض اصولیوں سے منقول ہے اور اہلِ فن اپنے فن کے بارے میں زیادہ خبر رکھتے ہیں۔ الحاصل قرآن مجید جس پر مشتمل ہے اور مشہور قراء نے اس پر اتفاق کیا ہے،وہی قرآن ہے۔ہر وہ چیز جس میں اہلِ علم نے اختلاف کیا ہے تو اگر مصحف کا رسم الخط ان دو قراء توں میں سے ہر ایک کے قراء ت ہونے کا احتمال رکھتا ہے جن قراء توں میں اختلاف وارد ہوا ہے اور وہ وجہ عربی اور معنی عربی کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہو تو وہ قرآن ہے اور اگر بعض کو چھوڑ کر بعض کا احتمال ہو اور اس کی اسناد وجہ عربی اور معنی عربی کے موافق ہونے میں غیر متحمل ہو تو یہ قراء ت شاذ ہو گی اور اپنے مدلول پر دلالت کرنے میں اخبارِ آحاد کا حکم رکھے گی،خواہ وہ قراء اتِ سبعہ ہو یا کوئی اور ہو۔ ہر وہ قراء ت جس کی سند صحیح نہیں ہے اور مصحف کا رسم الخط اس کا متحمل نہیں ہے تو وہ قرآن ہے نہ اس کو اخبارِ آحاد کے مقام پر رکھا جائے گا۔اس کے قرآن ہونے کی نفی ظاہر ہے اور اس کا اخبارِ آحاد کے مقام پر نہ ہونے کا حکم اس کی سند کے صحیح نہ ہونے کی بنا پر ہوگا،اگرچہ وہ معنی عربی اور وجہ عربی کے موافق ہی کیوں نہ ہو،کیوں کہ اسناد کی عدمِ صحت کے ہوتے ہوئے محض موافقت کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ قرآن مجید سات قراء توں (لہجوں) پر اترا ہے اور ان سات قراء توں سے مراد لغاتِ عرب ہیں اور وہ سات ہیں۔ان میں سے بہت کم الفاظ پر اختلاف ہے،ان کے غالب حصے پر اتفاق ہے۔پس ہر وہ (قراء ت) جو ان لغات میں سے کسی لغت کے موافق ہو تو وہ عربی معنی اور اعراب کے موافق ہے۔یہ مسئلہ قدرے تفصیل کا متقاضی ہے تاکہ اس کے ساتھ اس چیز کی حقیقت واضح ہو جائے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے
Flag Counter