Maktaba Wahhabi

612 - 871
جائے گی اور جو کچھ پوشیدہ ہے،وہ ظاہر ہو جائے گا،اس وقت سب کو معلوم ہو جائے گا کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ ہر جزو اور کل کا حساب لینے والے پر ان کا ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ بوقت صبح شود ہمچو روز معلومات کہ باکہ باختۂ عشق در شبِ دیجور [صبح کے وقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ اس نے کس عشق کی بازی ہارے ہوئے کے ساتھ تاریک رات گزاری ہے] کون ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ قرآن کریم کا فہم رکھتا ہو اور اس کے معنی و مفہوم کو زیادہ جانتا ہو؟ إلا من رحمہ اللّٰہ۔اس کے باوجود قرآن مجید کا معنی بیان کرنے میں ان کی صورتِ حال یہ تھی کہ لوگوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آیتِ کریمہ: ﴿وَفَاکِھَۃً وَّاَبًّا﴾ [عبس: ۳۱] [اور پھل اور چارہ] کا معنی دریافت کیا تو وہ فرمانے لگے: ’’أَيُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِيْ،وَأَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِيْ إِذَا قُلْتُ فِيْ کِتَابِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ؟‘‘ [1] [اگر میں بغیر علم کے کتاب اللہ کے معنی و مفہوم کے بارے میں لب کشائی کروں تو کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہو گا اور کون سی زمین مجھے پناہ دے گی؟] الحاصل رائے کے ساتھ قرآن مجید کی تفسیر کرنے کی ممانعت اس شخص کے لیے ہے،جو اپنے دل کی مراد پوری کرنے کے لیے قرآن مجید کی (رائے کے ساتھ) تفسیر کرتا ہے اور وہ اپنی خواہش کا تابع ہے،خواہ وہ علم کی بنا پر ایسا کرے یا جہل کی بنا پر۔اسی طرح اپنی بدعت اور عقیدہ فاسدہ کی تصحیح کے لیے قرآن مجید کی بعض آیات کو دلیل بنانا،باوجودیکہ وہ جانتا ہے کہ اس آیت کا کوئی اورمعنی اور مفہوم ہے،لیکن وہ اپنے مد مقابل کو اندھیرے میں رکھنے کے لیے اور اپنی دلیل کو تقویت پہنچانے کے لیے ایسا کرتا ہے،جس طرح کہ باطنیہ کا شیوہ ہے،معتزلہ کا طریقہ ہے اور خوارج،روافض،مقلدین،اہلِ کلام اور شکوک و شبہات میں گرفتار معقولیوں کا طرزِ عمل ہے۔اسی طرح وہ آیت جو چند وجوہ کااحتمال رکھتی ہے،مگر وہ شخص اس آیت کی ایسے معانی اور وجوہ کے ساتھ تفسیر کرتا ہے جن کی وہ آیت محتمل نہیں ہوتی ہے۔پس تفسیر کی یہ دو قسمیں قابلِ مذمت ہیں اور مذکورہ بالا وعید میں داخل ہیں۔
Flag Counter