Maktaba Wahhabi

560 - 871
اسی طرح قرآن مجید میں گناہ گاروں کے عذاب اور نیکو کاروں کے ثواب میں ہر جگہ ایک اور ہی رنگ اور انداز اختیار کیا گیا ہے۔جہنمیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑنا،ہر جگہ ایک علاحدہ صورت میں جلوہ گر نظر آتا ہے،بہرحال اس موضوع پر بہت لمبی بات ہو سکتی ہے۔ نیز ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقتضاے مقام کی رعایت جس کی تفصیل فنِ معانی میں ہے اور استعارات و کنایات جن سے فنِ بیان بھرا ہوا ہے،باوجود مخاطبین کے حال کی رعایت کے،جو امی،ان پڑھ اور ان فنون سے ناآشنا تھے،قرآن مجید میں جس انداز سے یہ سب کچھ بیان ہوا ہے،اس سے بہتر انداز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ اس جگہ مقصود یہ ہے کہ معروف طرزہاے تخاطب میں،جن سے تمام لوگ آشنا تھے،اس نکتۂ عام کو داخل کیا جائے،جو دو نقیضوں کو جمع کرنے کی طرح ہے۔ زپای تا بسرش ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامن دل میکشد جا کہ اینجا ست [اس کے پاؤں سے لے کر سر تک جہاں بھی میں نگاہ ڈالتا ہوں تو دل کے دامن کو یہ کرشمہ کھینچ لیتا ہے کہ دل لگانے کی جگہ یہی ہے] 5۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرارِ شرائع میں تدبر کرنے والے کے سوا کسی کو اس کا فہم میسر نہیں آتا اور وہ یہ ہے کہ وہ پانچ قرآنی علوم جس کا بیان دوسرے باب میں آ رہا ہے،بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولادِ آدم کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے۔ اسرارِ شرائع کا عالم یہ جانتا ہے کہ بنی آدم کے نفوس کی تہذیب کے لیے کس کس چیز کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔بعد میں وہ علومِ خمسہ پر غور کرتا ہے تو یقینا اسے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ یہ فنون اپنے معانی میں اس انداز کے ساتھ بیان ہوئے ہیں کہ اس سے بہتر صورت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔یہ وجوہِ مبانی اور نظمِ قرآنِ کریم کا مختصر بیان تھا۔
Flag Counter