Maktaba Wahhabi

499 - 871
نہیں ہے،کیونکہ محتمل ہے کہ انھوں نے اس میں شک کیا ہویا کہا ہو،لیکن بعض روات نے ان سے نقل نہ کیا ہو یا ان پر مخفی رہ گئی ہو۔[1] انتھیٰ۔ لیکن ابوالشعثاء رحمہ اللہ کا قول اس کا انکار کر رہا ہے،جیسا کہ گزرا۔بعض نے دونوں حدیثوں میں ترجیح کا طریقہ اپنایا ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں اس کے رفع و وقف کا اختلاف ہے،جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث مختلف نہیں ہے،اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کاٹنے کے حکم کے بارے میں روایت شاذہ کے ماسوا میں مختلف نہیں ہے،نیز اس سے بھی ان کا معارضہ کیا گیا ہے کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مختلف ہے۔چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے بہ سند صحیح سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ محدثین میں سے کوئی بھی شک نہیں کرتا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حد یث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے اصح ہے،کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ایسی سند سے آئی ہے،جو اصح الاسانیدہے اور اس پر کئی ایک حفاظ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اتفاق کرتے ہیں،انھیں میں نافع اور سالم رحمہما اللہ ہیں۔اس کے برخلاف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث صرف جابر بن زید رحمہ اللہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً آئی ہے،حتی کہ اصیلی نے فرمایا ہے کہ’’إنہ شیخ مصري لایعرف،کذا قال،و ھو شیخ معروف موصوف بالفقہ عند الأئمۃ‘‘ [یقینا وہ غیر معروف مصری شیخ ہے،ایسے ہی انھوں نے کہا ہے،حالانکہ وہ معروف شیخ ہے اور ائمہ کے ہاں فقہ کے ساتھ موصوف ہے] ان میں سے بعض نے خف کو سراویل پر قیاس کرکے نہ کاٹنے پر استدلال کیا ہے،مگر یہ ردکردیا گیا ہے،کیونکہ نص سے ٹکرا رہاہے،لہٰذا فاسد الاعتبار ہوگا۔بعض نے عطا رحمہ اللہ کے قول کو دلیل بنایاہے کہ کاٹنا فساد ہے اور اﷲ تعالیٰ فساد کو دوست نہیں رکھتا،مگر یہ بھی مردود ہے،کیونکہ فساد اس چیز میں ہے،جس سے شریعت نے نہی کی ہے،نہ کہ اس چیز میں جس کی اجازت دی ہے،بلکہ اس کو واجب کیا ہے۔ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ دونوں حدیثوں پر عمل کرتے ہوئے کاٹنے کا حکم اباحت پر محمول ہے،اشتراط پر نہیں اور یہ تکلف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مطلق ومقید میں تعارض نہیں ہے،کیونکہ دونوں کے درمیان مطلق کو مقیدپر محمول کرنے کے ذریعے
Flag Counter