Maktaba Wahhabi

495 - 871
کی ہر حدیث غیر موول معمول بہ ظاہر نہیں ہے،جب کہ اس حدیث کے ظاہر پر ائمہ کی ایک جماعت نے عمل کیا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہی وہ محمل ہے جس کی طرف احمد،قاضی حسین اور ائمہ کی ایک جماعت حضر میں بوقتِ ضرورت دونمازیں ایک ساتھ پڑھنے کے جواز کی طرف گئی ہے،خصوصیت سے اس کے لیے جو اسے عادت نہ بنائے اور یہی اصحابِ مالک رحمہ اللہ میں سے ابن سیر ین اور اشہب رحمہما اللہ کا قول ہے اور اسے خطابی رحمہ اللہ نے اصحابِ شافعی میں سے قفال شاشی کبیر سے،ابو اسحاق مروزی رحمہما اللہ سے اور اصحابِ حدیث کی ایک جماعت سے حکایت کیا ہے اور اسے ابن المنذر رحمہ اللہ نے مختار قرار دیا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ظاہر قول’’أراد أن لایحرج أمتہ‘‘ اس کی تائید کرتا ہے،یہاں انھوں نے اس کی تاویل بیماری وغیرہ سے نہیں کی ہے۔واللّٰہ أعلم،انتھیٰ کلامہ۔ میرے نزدیک یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بغیر کسی عذر و حاجت کے اخذکیا ہے،کیونکہ وہ ظہر و عصر اور مغرب و عشا کے وقت میں اشتراک کے قائل ہیں،کیونکہ ظہر و عصر اور مغرب و عشا ایک ساتھ پڑھنے کا لفظ’’فَأَخُّرَ الظُّھْرَ فَصَلَّاھَا فِيْ وَقْتِ الْعَصْرِ‘‘ کے لفظ کے ساتھ مالک رحمہ اللہ کے قول سے زیادہ کسی شَے پر دلالت نہیں کرتا۔ان کے مذہب میں اشتراک کا معنی یہ ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے تو عصر کا وقت داخل ہوجاتا ہے اور ظہر کا وقت نہیں جاتا،بلکہ دونوں وقت غروب تک باہم آمیز ہوجاتے ہیں۔پس ظہر کا وقت مختار ہر چیز کا سایہ اس کے مانند ہوجانا ہے اور جب تک غروبِ آفتاب چار رکعت کی مقدار وقت رہ جائے تو اس کا آخر وقت ادا ہے۔مالک رحمہ اللہ اس قول میں اکیلے نہیں ہیں،بلکہ طاؤس اور عطاء رحمہما اللہ ان کے موافق ہیں۔مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مغرب کا وقت ممتد ہوتا ہے،پھر یہ وقت عشا کے ساتھ مشترک ہوجاتا ہے تو مغرب میں ان کے نزدیک مختار وقت ایک ہے اور عشا تک وسعت رکھتا ہے اور وقتِ ادا برقرار رہتا ہے،جب تک فجر کے نمودار ہونے سے پہلے چار رکعت کی بہ مقدار وقت موجود ہو۔طاؤس رحمہ اللہ کے نزدیک مغرب اور عشا دن ہونے پر ہی فوت ہوتی ہیں اور ان کا مستند اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہی حدیث ہے۔مسلم میں اس حدیث کے ایک طریق میں آیا ہے کہ یہ ظہر کو دیر کرکے اور اسے عصر کے ساتھ عصر کے وقت میں ایک ساتھ پڑھنا ہے اور ایسے ہی مغرب میں تاخیر کرکے اسے عشا کے ساتھ پڑھنا ہے اور یہ عین اشتراک وامتزاج ہے۔ان سب کے باوجود مذاہب کا علم رکھنے والے
Flag Counter