Maktaba Wahhabi

471 - 871
ایسے ہی صحیحین وغیرہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((إِنَّ فِي الصَّلَاۃِ لَشُغْلاً)) [1] [یقینا ًنماز میں یہ ایک طرح کا شغل اور مصروفیت ہوتی ہے] کے الفاظ میں ہے۔ احمد،نسائی،ابوداود اور ابن حبان رحمہ اللہ علیہم کی روایت میں ہے: ((إِنَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ مِنْ أَمْرِہِ مَا شَائَ،وَإِنَّہٗ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِہِ أَنْ لَّا یُتَکَلَّمَ فِي الصَّلَاۃ)) [2] [یقینا اللہ تعالیٰ اپنے معاملے میں جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،بلاشبہہ اس نے نئی بات یہ پیدا کی ہے کہ نماز میں کلام نہ کیا جائے] یہ نسخ میں صریح ہے۔حسن اہدل رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مالک وابوحنیفہ اور احمد وجمہور سلف رحمہ اللہ علیہم کا مذہب نماز میں کلام کی تحریم ہے،اگر چہ وہ نماز کی ضرورت اور مصلحت کے لیے ہو۔نیز یہ کہ کلام نماز کو باطل کردیتا ہے۔اوزاعی رحمہ اللہ اور ایک گروہ نے کہا ہے کہ ذوالیدین رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے نماز کی مصلحت کے لیے جائز ہے اور یہ اصحاب مالک سے روایت کیا گیا ہے۔واللّٰہ أعلم۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی’’شرح مختصر‘‘ میں کہا ہے کہ جو بھول جائے اور جسے ممانعت کا علم نہ ہو،اس کے کلام میں اختلاف ہے۔رہا علم نہ رکھنے والا تو صحیح میں معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ظاہر معنی یہ ہے کہ وہ اعادہ نہیں کرے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جاہل پر تنگی نہ کرنا اور غالب احوال میں قضا کا حکم نہ دینا تھی،بلکہ اس کی تعلیم پر اور اسے کسی چیز کے عدمِ جواز کی خبر دینے پر جو اس سے ہوئی ہو،اکتفا کرنا تھی۔ہاں کبھی اعادہ کا حکم بھی دیتے تھے،جیسا کہ مسییٔ صلاۃ کی حدیث میں ہے۔بہ ظاہر غلطی کرنے والے اور بھولنے والے اور عالم کے درمیان ابطالِ صلات میں فرق نہیں ہے۔[3] حافظ ابن القیم رحمہ اللہ’’إعلام الموقعین‘‘ میں ناواقف اور بھولنے والے متکلم کی نماز کی صحت کی طرف گئے ہیں،[4]جب کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ بھولنے والے کا کلام مبطلِ صلات
Flag Counter