Maktaba Wahhabi

460 - 871
میں قبلہ غربی ہے،کیونکہ اگر ہم منہ مشرق و مغرب کی طرف کریں تو منہ اور پیٹھ قبلے کی جانب ہوگی۔غرض اس سے نہی ہے،لیکن جس کا قبلہ اس کے استقبال یا استدبار میں آئے تو کہتے ہیں کہ یہ حدیث،ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے منسوخ ہے،کیونکہ انھوں نے کہا ہے: ((اِرْتَقَیْتُ فَوْقَ بَیْتِ حَفْصَۃَ لِبَعْضِ حَاجَتِيْ فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقْضِيْ حَاجَتَہُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَۃِ مُسْتَقْبِلَ الشَّامِ)) [1] (متفق علیہ) [میں کسی کام سے حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا،میں نے دیکھا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلے کی جانب پیٹھ اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے قضاے حاجت کر رہے ہیں ] جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ انھوں نے اس نہی کے ایک سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلے کی طرف پیٹھ کر کے پیشاب کر رہے تھے تو ایک جماعت نے گمان کیا کہ یہ پہلی حدیث سے منسوخ ہے،جبکہ ایسا نہیں ہے،کیونکہ اول حدیث صحرا میں ہے اور ثانی آبادی میں ہے۔میں کہتاہوں کہ اس باب میں کئی مذہب ہیں : 1۔دونوں کے درمیان فرق کرنا۔یہ مالک،شافعی اور احمد رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا مذہب ہے۔ 2۔استقبال کا بہر صورت عدمِ جواز ہے۔ 3۔دونوں کا ہر صورت میں جواز ہے۔ 4۔ہر صورت میں استقبال کا عدمِ جواز اور ہر صورت میں استدبار کا جواز ہے۔ شافعی رحمہ اللہ وغیرہ نے تفریق پر احادیثِ صحیحہ سے جن میں بنیان کے اندر جواز کی صراحت ہے،استدلال کیا ہے،لہٰذا دونوں روایتوں میں تطبیق کے لیے نہی صحرا پر محمول ہوگی۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس مسئلے میں آٹھ اقوال پر اختلاف کیا گیا ہے اور میں نے’’شرح منتقیٰ‘‘ میں انکا پورا بیان کیا ہے۔[2] انتھیٰ۔ اپنی مختصر کتاب میں وہ عدمِ استقبال واستدبارِ قبلہ کی طرف گئے ہیں اور اس کی شرح میں مجوزین و مفرقین کے ادلہ کاجواب دیا ہے،اس کی پوری بحث’’مسک الختام شرح بلوغ المرام‘‘ میں مذکورہے،اس کو دیکھیے۔[3]
Flag Counter