Maktaba Wahhabi

191 - 871
کرے،کیوں کہ اس سے ایسی صفت کا اِحداث لازم آتا ہے،جو مجموعاً ایک روایت میں وارد نہیں ہوئی ہے،بلکہ گاہے ایک روایت کو اور گاہے دوسری روایت کامل طریقے سے قراء ت کر لے۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ،امام شوکانی رحمہ اللہ اور علماے راسخین کی ایک جماعت کا مختار مذہب یہی ہے۔ بعض اعلام نے کیا خوب کہا ہے: ’’إن الطاعۃ مع الاتباع،وإن قلت،أفضل منھا بغیرہ،وإن جلت،لقولہ تعالیٰ: ﴿قُلْاِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾‘‘ [بلا شبہہ اطاعت کے ساتھ اتباع کرنا،اگرچہ وہ تھوڑی ہو،اس کے غیر سے افضل ہے،چاہے وہ بہت زیادہ ہو،کیوں کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا] لہٰذا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا: ﴿صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ تو انھوں نے اپنی طرف سے درود کے الفاظ وضع نہیں کیے،حالانکہ وہ بڑے فصیح و بلیغ،عالی مقام اور رفیع الشان تھے،بلکہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کیسے بھیجیں ؟ اس سلسلے میں تقریباً تیس (۳۰) روایات مروی ہیں۔چنانچہ محبِ خدا اور متبعِ سنت،اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ہرگز تجاوز نہیں کرتا ہے۔ہاں تابعین اور ان کے بعد والے لوگوں نے درود کے کچھ الفاظ بنائے ہیں،سو ان کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے،کیوں کہ لوگوں کے بنائے ہوئے درود کے صیغے اور الفاظ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ الفاظ سے اتنی بھی نسبت نہیں ہے،جتنی ذرے کو آفتاب سے ہوتی ہے۔اب جو کوئی اس بات کا معتقد ہو کہ درود’’دلائل الخیرات‘‘[1] یا درود’’شفاء الأسقام‘‘[2] یا درود ابن مشیش[3] وغیرہ مثلاً اس درود سے افضل ہے،جو صحاح و سنن میں وارد ہے تو وہ شخص مدارکِ شرع سے کئی مرحلے دور ہے۔گو بدوں مبالغہ و افراط اس کے نفسِ جواز میں کلام نہیں ہے۔واللّٰہ أعلم۔
Flag Counter