Maktaba Wahhabi

132 - 871
حکایت: شیخ علی حقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک ہندی عالم نے مدینہ منورہ میں اسی طرح مجھ کو ۱۲۶۲ھ میں اجازت دی اور کہا کہ ہمارے شیخ ایک خالی جگہ میں لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور ان کے پاس بہت سے مرید تھے،جو ہرروز شیخ کو ان کی مرضی کے مطابق انواع و اقسام کے کھانے کھلاتے تھے،ان کا کوئی کسب تھا نہ تجارت،بس یہی فاتحہ کا تصرف تھا۔[1] وللّٰہ الحمد۔ فائدہ: علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فاتحہ کے ساتھ دم والی حدیث کے متعلق کہا ہے: ’’إذا ثبت أن لبعض الکلام خواص ومنافع،فما الظن بکلام رب العالمین،ثم بالفاتحۃ التي لم ینزل في القرآن ولا في غیرہ من الکتب مثلھا،لتضمنھا جمیع معاني الکتب،وقد اشتملت علی ذکر أصول أسماء اللّٰہ تعالیٰ ومجامعھا،وإثبات المعاد وذکرالتوحید والافتقار إلی الرب تعالیٰ في طلب الإعانۃ والھدایۃ منہ،وذکر أفضل الدعاء،وھو طلب الھدایۃ إلی الصراط المستقیم المتضمن کمال معرفتہ وتوحیدہ،وعبادتہ بفعل ما أمر بہ واجتناب ما نھیٰ عنہ،والاستقامۃ علیہ،ولتضمنھا ذکر أوصاف الخلائق وقسمتھم إلی منعم علیہ بمعرفۃ الحق و العمل بہٖ و مغضوب علیہ لعدولہ عن الحق بعد معرفتہ،وضال بعدم معرفتہ لہ مع ما تضمنتہ بإثبات القدر والشرع والأسماء والمعاد والتوبۃ وتزکیۃ النفس وإصلاح القلب والرد علیٰ جمیع أہل البدع،وحقیق لسورۃ ھٰذا بعض شانھا أن یستشفیٰ بھا من کل داء‘‘[2]انتھیٰ۔ [جب کسی اور کلام کے خواص اور منافع ثابت ہیں تو رب العالمین کے کلام کے بارے
Flag Counter