Maktaba Wahhabi

421 - 534
آسان اور قابلِ عمل ہے ، جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے ۔ اسلام سرمایہ داری قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا ، بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے برقرار رکھتاہے اور ہمارے لئے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے ، جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ، ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے ، کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کےاخوان نہیں ہوسکتے ،جب تک وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اوراس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں ، جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق اور تولید ہو اور مجھے یقین ہے کہ خودرُوسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے ناقص تجربے سے معلوم کرکے ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائے گی ، جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے ۔ موجودہ صورت میں رُوسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو ، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہوسکتی ۔ہندو ستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی سیاسی اقتصادیات پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں ، ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کی اقتصادی تعلیم پر نظرِ غائر ڈالیں ، مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کاحل اس کتاب میں پائیںگے ۔[1]ساتھیو!یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ملی انفرادیت ( National Individuality ) کھو بیٹھے ہیں، ہم کبھی امریکہ اور کبھی روس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں ، کبھی چین کو دیکھ کر ہماری رال ٹپکتی ہے ۔ ہر دور کے لات و عزی ہوتے ہیں ۔اور امریکہ اور روس اس دور کے لات وعزّی ہیں:
Flag Counter