Maktaba Wahhabi

387 - 534
ہے کہ دونوں طرف چیز الگ الگ ہوتی ہے۔جبکہ سود کے معاملہ میں دونوں طرف ایک ہی چیز ہوتی ہے۔اسی طرح تجارت میں ایک آدمی اپنی چیز دے کر اس کے عوض میں کوئی چیز لے رہا ہوتا ہے۔مگر سود میں ایک فریق کو تو معاوضہ مل رہا ہوتا ہے۔جبکہ دوسرے فریق کو کچھ نہیں ملتا بلکہ الٹا وہ دے رہا ہوتا ہے۔نیز تجارت میں تو ایک دفعہ منافع لے کر معاملہ مکمل ہوجاتا ہے اس کے برعکس سود کی صورت میں رقم دینے والا اپنی رقم پر مسلسل سود لیتا رہتا ہے۔اور عموما یہ سود اصل رقم سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔اس قسم کے اسباب کے پیش نظر اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ ان کے علاوہ سود خور اخلاقی پستی کا بھی مریض ہوتا ہے وہ خود غرض،بخیل،بےرحم اور زرپرست بن جاتا ہے ایک اچھے مسلمان میں ایسی باتیں قابل مذمت ہیں۔ان بدعات کے نتیجہ میں انسانوں کے ما بین نفرت،عداوت اور قطع تعلقی وغیرہ جیسی عادات آجاتی ہیں جن کی اسلام قطعا ًاجازت نہیں دیتا۔ چونکہ سود انسان کے دین کا بھی دشمن ہے اور اخلاق کا بھی۔اس لئے اللہ تعالی نے انتہائی سخت الفاظ کے ساتھ سود سے منع فرمایا اور اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف ٹھہرایا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے }يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ؁ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ {( البقرہ:278تا279 ) ’’ اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ‘‘ ۔ یہی وجہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ ’’جاہلیت کے تمام سودی معاملات کالعدم ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس کا سود ساقط کرتا ہوں انہوں نے لوگوں سے جو سود لینا تھا وہ نہیں لیں گے‘‘۔ [1] اللہ تعالی نے انسانوں کو بہت سےگناہوں سے منع کیا ہے مگرجس قدر وعید سود کے متعلق ہے ایسی سخت وعید دوسرے کسی گناہ پرنہیں ہے۔سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter