Maktaba Wahhabi

385 - 534
’’تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر اللہ کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے ۔ اور اس سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لئے ہم نے درد دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔ نیز اللہ تعالی نے فرمایا: }وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ؀{ ( الروم : 39 ) ’’ اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوۃ دیتے ہو اور اس سے اللہ کی رضامندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجب برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) بڑھانے والے ہیں‘‘۔ سود کا مفہوم قرآن مجید میں سود کے لئے ربوٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔جس کا معنی ہے اضافہ اور زیادتی۔گویا لغوی طور پر اصل رقم پر جو بھی اضافہ ہو اسے سود کہا جاتا ہے۔مگر رقم پر اضافہ کی ہر صورت ربوٰ یا سود نہیں بلکہ اس کی بعض سورتیں جائز اور بعض ناجائز ہیں۔مثلاً کاروبار اور تجارت کے ذریعہ بھی اصل رقم پر منافع کی صورت میں اضافہ ہوتا ہے یہ شرعاً بھی جائز ہے اور اخلاقاً بھی۔مگر سود اصل رقم پر مخصوص انداز کا اضافہ ہے جس کی اجازت قطعا ً نہیں بلکہ یہ سرے سے حرام ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: }اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ{ کہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔ چونکہ عربوں میں سود یا ربوٰ کی صورت متعین اور معلوم تھی اس لئے اس کی وضاحت اور تشریح کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:’’ دور جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور قیمت کی ادائیگی کے لئے وقت مقرر کرلیتا۔اگر مقررہ مدت پر وہ ادائیگی نہ کرسکتاتو وہ قیمت میں اضافہ قبول کرکے مزید مہلت لے لیتا تھا۔اسے سود کہتے تھے‘‘۔ اسی طرح مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے۔’’قبل از اسلام رواج تھاکہ ایک آدمی قرض لیتا اور کہتا کہ اگر تم
Flag Counter