Maktaba Wahhabi

362 - 534
فی حدذاتہ کسی کی مملوک ِخاص نہیں جب ان سب کو سب کیلئے مباح کردیاتو ان سے فائدہ حاصل کرنے میں انسانوں کے درمیان مزاحمت اور مناقشت شروع ہوئی توپھر اس آیتِ مبارکہ سے راہنمائی کی کہ: }وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ{(الانعام: 165) ’’وہی تو ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایااور ایک کے مقابلے میں دوسرےکےدرجےبلندکئےتاکہ جوکچھ اس نےتمہیں دےرکھاہےاسی میں تمہاری آزمائش کرے‘‘۔ ایک جگہ فرمایا: آمِنُوْا بِاللّٰه وَرَسُوْلِهِ وَأَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِ (الحديد: 7) ’’ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمہیں نمائندہ بنایا ہے ‘‘۔ یعنی حقیقت میں مال و ملکیت اورزمین اور اس میں موجودتمام نعمتیں اورمعدنیات اللہ رب العزت کی ملکیت ہیں اور انسان کی حیثیت اْسمیں ایک وکیل اور نمائندہ کی سی ہے اورپھر شریعتِ اسلامی نےیکسرشخصی ملکیت کاانکار نہیں کیابلکہ اجتماعی مفادات کے پیش نظرایسے قواعد اورطریقےوضع کئے جو انفرادی ملکیت میں اعتدال بھی رکھ سکیں اوراجتماعی مفاد کو کوئی ٹھیس بھی نہ پہنچے اس طرح زمینی اراضی کی بنیادی طور پر دو ہی اقسام بنتی ہیں: اوّل:ایسی اراضی جو حکومتی ملکیت ہوں۔ دوم:ایسی اراضی جو انفرادی یا شخصی ملکیت ہوں۔ عمومی طور اراضی مملکت مندرجہ ذیل اقسام پر مشتمل ہوتی ہے: (1)اراضی موات: اراضی موات ایسی بنجر مردہ اور دور افتادہ زمین کو کہا جاتا ہے جسے کسی نے آباد نہ کیا ہو، کتب فقہیہ میں باب احياءالموات میں اس کے متعلقہ احکام ذکر کئے جاتے ہیں،إحياءالموات سے مراد کسی ایسی زمین کو پانی لگانے،زراعت وکاشتکاری یا عمارت تعمیر کرنے کے ذریعے آباد کرنا جو پہلے کسی کی ملکیت نہ ہو؛ ایسی زمین کی آبادکاری کیلئے شریعتِ اسلامی نے سادہ سا اصول بتایا ہے کہ’’من أحيا أرضا ميتة فهي له‘‘جس نےمردہ پڑی بےآبادزمین کو آباد کیا وہ اسی کی ہے۔’’ کوفہ میں پڑی بنجر اور بےآباد زمینوں کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہی رائے تھی ‘‘۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’من
Flag Counter