Maktaba Wahhabi

326 - 534
حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام میں آج بھی ایسے اوقاف موجود ہیں جن کی جہتیں متعین ہیں ، کوئی وقف خالصتاً بیواؤں کے لئے ہے ، کوئی یتیموں کے لئے ہے ، کوئی وقف قرض لینے والوں کے لئے خاص ہے اور انہیں بغیر سود کے قرض مہیا کرتا ہے ، کسی وقف کے تحت ایک ہسپتال ہے جس میں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے ، ایک بہترین وقف کی زندہ مثال وقف الملک عبدالعزیز ہے جو کہ ایک (72) بہتر منزلہ عمارت ہے اور بیت اللہ کے بالکل سامنے ہے یہ ایک ہوٹل ہے جس کا نام ابراج زمزم (زمزم ٹاور)ہے اس کی ساری آمدنی کو مسجد الحرام کے اخراجات کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ اگر ان اوقاف کی جہتوں میں کچھ توسیع کرلی جائے اور ان میں وہ چیزیں بھی شامل کردی جائیں جن کا انشورنس کرایا جاتا ہے تو یہ یقیناً سودی انشورنس اور تکافل کے نظام سے ایک بہت بہتر نظام اور بالاتفاق جائز معاملہ ہوگا۔ دشواری صرف اس بات کی ہے کہ تعاون میں بھی تجارت ڈھونڈنے اور دین سے دنیا حاصل کرنے والے افراد کو یقیناً یہ کاوش پسند نہیں آئے گی اور وہ اسے پیسوں کا ضیاع اور کاروباری گھاٹا تسلیم کریں گے ۔ دنیا کی نظر میں یقیناً صدقہ کرنے والے کو اس کے صدقہ میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ، لیکن ’’دنیا فانی ہے ‘‘کے فلسفہ پر یقین رکھنے والے اور اخروی زندگی پر ایمان لانے والے کا عقیدہ یہ ہے کہ ہمیں حاصل ہی وہ ہوتا ہے جو ہم اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :جب آدم کا بیٹا مرتا ہے تو اس کے سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں ، سوائے تین اعمال کے ، صدقہ جاریہ، ایسا علم جو نفع پہنچائے، وہ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے‘‘۔[1] وقف صدقہ جاریہ کی بہترین عملی تصویر ہے ، وقف کرنے والے یا وقف میں حصہ ڈالنے والے جب تک زندہ ہیں وہ کسی حادثہ کا شکار ہونے کی صورت میں اپنے وقف سے مستفید ہوسکتے ہیں ، اور ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد بھی یہ وقف ان کے لئے اجرو ثواب کا باعث بنا رہے گا۔ واللّٰه أعلم وصلى اللّٰه علي نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعبن
Flag Counter