Maktaba Wahhabi

321 - 534
علماء نے جائز قرار دیا ہے ، خاص طور پر مالی معاملات میں انتہائی محتاط علما ء کمیٹی یعنی سعودی عرب کی کبار علماء کمیٹی نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مال و منافع کی حرص میں آکر علماء اور عوام دونوں کے سامنے غلط بیانی کی گئی ہے ، علماء کے سامنے تکافل کی جو صورت بیان کی گئی وہ موجودہ تکافل سے قطعی مماثلت نہیں رکھتی ، اور صرف نام ایک جیسا رکھ کر عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے، اس دھوکہ دہی سے خبردار کرتے ہوئے سعودی عرب کی اسی علماء کمیٹی نے اپنے حالیہ فتوی میں موجودہ تکافل کی صورت کو حرام قرار دیا ہے ، مکمل فتوی کا ترجمہ درج ذیل ہے: ’’حمد وثناء کے بعد : بیشک علماء کمیٹی پہلے کمرشل انشورنس کی حرمت کا فتوی جاری کرچکی ہے کیونکہ اس میں دھوکہ ہے ، جوا ہے ، اور لوگوں کے اموال کو باطل طریقہ سے ہڑپ کیا جاتا ہے ، اور یہ ایسے معاملات ہیں جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے اور ان سے سختی سے منع کیا ہے ، اور اسی طرح علماء کمیٹی نے تعاون پر مبنی انشورنس (تکافل ) کے جواز کا فتوی بھی دیا تھا جس کی صورت یوں (بیان کی گئی) ہے کہ نیک ومالدار افراد صدقہ خیرات جمع کریں جس سے محتاج و مجبور افراد کی مدد کی جائے ، اور رقم جمع کرانے والوں کو اس رقم سے کچھ بھی واپس نہیں ملے گا ، نہ اصل مال نہ ہی منافع اور نہ ہی کوئی اور بدل، کیونکہ تعاون کرتے ہوئے مال جمع کرانے والے کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی قسم کا دنیاوی فائدہ ، اور یہ تعاون اللہ تعالی کے اس فرمان میں مذکو ر ہے: }وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ {(المائدہ:2) ترجمہ: ’’اور تم نیکی کے کاموں اور تقوی پر تعاون کرو ، اور گناہ کے کاموں اور ظلم وزیادتی پر تعاون نہ کرو‘‘۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’اللہ تعالی اس وقت تک اپنے بندہ کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘ اور یہ معاملہ بالکل واضح ہے اس میں کسی قسم کی
Flag Counter