Maktaba Wahhabi

301 - 534
کریں۔ (15)نادار شخص کے قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں اسلامی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے افراد کی مدد کرے اور ان کا قرضہ اپنے ذمہ لے۔ امام بخاری اور امام مسلم رحمہمااللہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا ، جس پر قرض ہوتا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : ’’ کیا اس نے اپنے قرض ادا کرنے کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟‘‘ پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا جاتا ، کہ اتنا مال چھوڑا ہے ، کہ اس سے قرض ادا ہوسکتا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز (جنازہ) پڑھاتے ، وگرنہ مسلمانوں سے فرماتے : ’’اپنے ساتھی کی نماز ( جنازہ ) پڑھ لو ‘‘۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوحات کے دروازے کھول دئیے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ایمان والوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا *ہوں۔ اس لیے ( اب ) جو بھی اہل ایمان میں سے وفات پاجائے اور اس کے ذمہ قرض ہو ، تو اس کا ادا کرنا میرے ذمہ ہے۔ اور جو کوئی مال چھوڑے ، تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے ‘‘۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عراق میں عبد الحمید بن عبد الرحمٰن کو لکھا کہ ’’ تم دیکھو ، کہ ہر وہ شخص جس نے بیوقوفی کے کاموں یا اسراف سے خرچ کرنے کے لیے قرض نہ لیا ہو ، اس کی طرف سے قرض ادا کردو۔‘‘ (16)بیت المال سے مقروض کی اعانت کیلئے تین شرائط کا ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔ (1)قرض لینے کا معقول اور جائز سبب کا ہونا۔ (2)ادائیگی قرض کے لیے مقروض کی تاحدِ استطاعت کوشش۔ (3) بیت المال میں مال کی موجودگی۔ یہ قرض نادہندگی کے چند اہم مسائل ان کا حل اور نظام قرض کی بہتری کیلئے چند اہم سفارشات تھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نظام معیشت کو شرعی خطوط پر استوار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ انہ ولی التوفیق وصلی اللّٰه و سلم علی نبينا محمد و علی آله وصحبه أجمعين
Flag Counter