Maktaba Wahhabi

282 - 534
طرزِ استدلا ل بالکل واضح اورصحیح ہے ۔ کیونکہ حدیث عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ اس باب میں اصل ہے اور اگر اشاریہ بندی پر اس کا انطباق کیا جائے تو نتیجہ ربا الفضل کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا ۔ ربا الفضل اور اشاریہ بندی کے باہمی رشتے کے بارے میں محققین نے سیرِ حاصل بحثیں کی ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات اصل مباحث کو دیکھ سکتے ہیں ۔ اشاریہ بندی میں ربا الفضل سےمشابہت کا جو پہلو ہے اس کے پیشِ نظر اسلامی نظریاتی کونسل[1] اور وفاقی شرعی عدالت نے بھی قرضوں کی اشاریہ بندی کو خلافِ شرع قرار دیا ہے ۔ نیز یہ سلسلہ اب کسی حد تک اجماعی شکل اختیا کرتا چلا جارہا ہے۔اسلامی ترقیاتی بینک جدہ اور انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اسلام آباد کے زیر اہتمام اشاریہ بندی کے موضوع پر منعقد سیمینار ۱۹۸۷ ؁نے قرار دیا تھا کہ: ’’ربا اور قرض کی احادیث میں مذکورہ یکسانیت اورمساوات سے وزن ،پیمائش اور مقدار کی مساوات مراد ہیں، مالیت کی برابری مراد نہیں ۔ یہ بات متعلقہ احادیث سے بھی ظاہر ہے جن میں اموالِ ربویہ کے لین دین میں ان کی قدر کو مدنظر رکھا جاتا۔ اس نکتہ پر امت کا اجماع ہے[2]اور اس پر اسی طرح عمل ہوتا چلا جارہا ہے۔‘‘[3] چنانچہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ربا الفضل کے پہلو کی بنا پر اشاریہ بندی ناجائز ہے۔
Flag Counter