Maktaba Wahhabi

247 - 534
اختلاف کیا ہو، بلکہ علماء کے کلام میں اس کا جواز و اباحت معروف ہے ۔اور یہ اس وقت ہے جب خرید و فروخت استعمال اور فائدے کے لئے کی جا رہی ہو ۔ مگر جب خریدار کوئی چیز اداھار میں اس لئے خریدے تاکہ اس کو نقد میں بیچ کراپنی فوری ضرورت کو پورا کر سکے، جیسے قرض کی ادئیگی ،گھر کی تعمیر ،یا شادی وغیرہ کیلئے،تو اگر یہ معاملہ صرف خریدار کی طرف سے ہے(یعنی ادھار میں بیچنے والا اس معاملہ سے لا تعلق ہو) تو اسکے جواز میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اور اس کا نام مسئلہ التورق اور بعض نے اس کا نام الوعدۃرکھا ہے ۔ اس معاملہ میں زیادہ راجح یہی کہ یہ جائز ہے اور یہ فتوی ہم سابقہ عمومی دلائل کی وجہ سے دیتے ہیں، اس لئے کہ معاملات میں اصل جواز و اباحت ہے الا کہ جس کی حرام ہونے کے حوالہ سے کوئی خاص دلیل ہو،اور ضرورت بھی اس کی متقاضی ہے اس لئے کہ ضرورت مندکو بوقت ضرورت کوئی مدد کرنے والا نہیں ملتااور نہ ہی کوئی اسے قرض کے طور پر کچھ دیتا ہے اور اس وقت اس کی ضرورت بھی سخت ہے جو اسی معاملے کا تقاضا کرتی ہے تاکہ وہ اپنی ضرورت بھی پوری کر لے جو اسکے قرض کی ادائیگی کے راستے کھول دے‘‘[1] وصلی اللّٰه و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین
Flag Counter