Maktaba Wahhabi

207 - 534
سے مسلمانوں کی جان چھوٹ سکتی ہے۔[1] بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بیع السلم بیعِ معدوم ہے اور خلاف ِقیاس ہے،لہٰذایہ جائز نہیں۔ اس حوالہ سےہم معروف محقق الشیخ مبشر احمد ربانی اور پھر امام ابن قیم رحمہ اللہ کے جوابات تحریر کریں گے۔ شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معدوم (غیر موجود) کی بیع جائز ہے۔قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ میں یاکسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت وارد نہیں ہوئی ۔ہاں جس طرح بعض موجودہ اشیاء کی بیع حرام ہے، اسی طرح بعض معین معدوم چیزوں کی بیع سے روکا گیا ہے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو لفظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لاتبع مالیس عندک‘‘ ’’جوتیرے پاس نہیں اس کی بیع نہ کر‘‘ [2] اللہ کے رسول ا صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان کسی معین چیز کے بارے میں ہے، جیسا کہ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ھذا بیوع الاعیان دون بیوع الصفات‘‘کہ یہ ممانعت معین چیزوں کی بیع میں ہے صفات کی بیع میں نہیں یعنی جس میں عدم (نہ ہونے) کی صفت پائی جائے ، اس کے لئے نہیں۔ [3] یا پھر اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ وہ چیز فروخت نہ کر جس کے دینے پر قدرت نہیں رکھتا۔جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ [4] پھر شیخ نے بیعِ سلم کی تعریف اور اس کے جواز کے دلائل لکھنے کے بعد فرمایا: ’’خلاصہ یہ ہے کہ شریعت نے ایسی چیز کی بیع کی اجازت دی ہے جو معدوم ہو جبکہ اس کے اوصاف وزن اور مدت وغیرہ معلوم ہو جائیں اور اس میں کسی قسم کی جہالت باقی نہ رہے‘‘۔[5] امام ابنِ قیم رحمہ اللہ بیعِ سلم کے خلافِ قیاس یا بیعِ معدوم ہونے کے اعتراض کےحوالہ سے جواباً
Flag Counter