Maktaba Wahhabi

201 - 534
(1) ضمانت کا وہ لیٹر جو زیرو مارجن (Zero Margin) ہو : اس صورت پر وہی حکم لاگو ہوگا جس کا جمہور اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ ضمانت پر معاوضہ لینا جائز نہیں ۔ لہٰذا اس صورت پر یہی حکم لگے گا ۔ (2) ضمانت کا وہ خط جوکلائنٹ کی جانب سے فل مارجن( full Margin) پر حاصل کیا گیا ہو: اس صورت کے بارے میں واللہ اعلم، ضمانت پر معاوضہ لینے کی ممانعت کا حکم نہیں لگے گا ۔ کیونکہ یہ معاوضہ کام کی مکمل کاروائی انجام دینے پر خدمات وسروسز کا معاوضہ ہے ۔تو اس صورت میں اگر تو بینک مستفید کو ادائیگی کرتا ہے تو وہ کلائنٹ کے پیسے سے ہی کر رہا ہے ۔ جس پر معاوضہ لیتا ہے اور اگر وہ ادا نہیں کر تا تو وہ کلائنٹ سے اس کے مال کی حفاظت کرنے اور اسے سروسز مہیا کرنے پر کمیشن حاصل کرتا ہے ۔ ( جس میں بظاہر قباحت نہیں )۔ (3) ضمانت کا وہ لیٹر جو فیصد مارجن پر حاصل کیا گیا ہو۔ اس صورت پر سابقہ دونوں صورتوں کے احکامات لاگو ہوں گے ۔ اس حصے پر معاوضہ جائز ہوگا جس کی ادائیگی ہوچکی ہے۔ اور اس حصہ پر نہیں ہوگا جس ک ادائیگی نہیں کی گئی۔ واللہ اعلم ۔ یہ بحث میں شیخ عمر بن عبد العزیز المترک کی رائے پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے اپنی کتاب ’’الربا و المعاملات المصرفية‘‘ میں بیان کی ہے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں: ’’ کہ جو کچھ مجھے صحیح محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ضمانت سے قبل ضمانت کی مکمل رقم مستفید کو ادا کر دی جائے یا پھر وہ فل مارجن پر ہو تو اس پر رائلٹی لینے میں کوئی حرج نہیں ۔کیونکہ اس حالت میں وہ کمیشن جو بنک حاصل کرتا ہے وہ مہیا کردہ خدمات کے مقابل ہوتا ہے جیسا کہ وہ چیک کے ذریعے تبادلے کے حوالے سے کمیشن لیتا ہے کیونکہ یہ کیفیت نہ تو قرض ہے اور نہ ہی قرض جیسی ہے۔کیونکہ بینک اپنے مال میں سے کچھ نہیں ادا کرتا بلکہ وہ تو اس مال میں سے ادا کرتا ہے جو کہ کلائنٹ کی رقم کی صورت میں اس کے پاس موجود ہوتا ہے ۔ اور اگر ضمانت کا خط زیرو مارجن پرہے تو اس کیفیت میں رائلٹی لینا جائز نہیں سمجھتا کیونکہ یہ ضمانت قرض کی صورت میں ہو سکتی ہے اور یہ صورت قرض پر نفع حاصل کرنے کی ہوجائے گی جو سود ہے اور سود کسی طرح بھی جائز نہیں ہوسکتا ۔اور سود ایسی رذیل برائی ہے کہ ضروری ٹہرتا ہے کہ اس کے
Flag Counter