Maktaba Wahhabi

199 - 534
اس طرح سے اجارہ اور جعالہ( رائلٹی ) میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ اجارہ کی ابتداءا ًعقد لازم کی حیثیت ہے ۔ جبکہ جعالہ ( رائلٹی ) عقد لازم نہیں بلکہ عقدِ جائز ہے طرفین اس کو کسی وقت بھی منسوخ کرسکتے ہیں ۔ الغرض رائلٹی کامفہوم کرایہ کے مفہوم سے کہیں زیادہ وسیع ہے کیونکہ رائلٹی کے بارے میں آپ نے جیسا کہ سابقہ سطور میں جان لیا ہے کہ اس میں کسی بھی کام کے معلوم ہونے کی شرط نہیں پائی جاتی اور نہ ہی مدت کا تعین ہوتا ہے اور جس امر کا تعین ہی نہ ہو تو اس کاوسیع ہونا بالکل ممکن ہے اور اس کے بالمقابل کرایہ ایک طے شدہ منافع کا نام ہے یا پھر دونوں فریقوں کے مابین طے پائی جانے والی کیفیت کا نام ہے جو دونوں فریقوں میں سے کسی بھی فریق کو اسے منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے جمہور اہل علم اس امر کے قائل ہیں کہ ضمانت فراہم کرنے پر کوئی معاوضہ نہ لیا جائےجیسا کہ مختلف کتب فقہ میں اس کی تصریح موجود ہے ۔ جیسے مجمع الضمانات علی مذهب الإمام أبی حنيفة للبغدادی ص 282، اور الشرح الکبير للدردير مع حاشية الدسوفي 3/ 404 ، اور الشرح الصغير 3/ 242 ، اور الفروع لإبن مفلح الحنبلی 4/ 207 ، اور کشاف القناع / 262۔ نیز دیگر کتب میں بھی صراحتاً منع اور عدم جواز کا ذکر ہے ۔ ضمانت پر معاوضہ نہ لینے کے حوالے سے مندرجہ ذیل دلائل اور توجیہات پیش کی جاتی ہیں: (1) یہ ایسا قرض ہے جو نفع لانے کا موجب بنتا ہے ، اور اس کہ وجہ یہ ہے کہ جب ضامن اپنے کلائنٹ کی طرف سے دوسرے فریق کو ادائیگی کرتا ہے تو اس پر اگر کمیشن لے گا تو یہ معاوضہ اس ادائیگی کے بدلے میں ہوگا جو کہ کلائنٹ پر بطور قرض واجب الادا تھی ۔ اور ضمانت کے خط کی بعض کیفیات میں تو یہ صورت میں مضبوط نظر آجاتی ہے کہ یہ قرض پر ہی نفع حاصل کیا جا رہا ہے کیونکہ مستفید براہ راست کلائنٹ سے رابطہ نہیں کرتا کہ وہ ادائیگی کرے بلکہ بینک سے ہی طلب کرتا ہے۔ گویا بینک اپنی طرف سے کلائنٹ کا قرضہ ادا کر رہا ہے اور اس قرضے پر معاوضہ وصول کر رہا ہے ۔ (2) یہ معاہدہ اور عقد احسان اورنرمی ووسعت پر مبنی ہے لہٰذا اس پر معاوضہ لینا مقاصدِ شریعت کےسراسر خلاف ہے ۔
Flag Counter