Maktaba Wahhabi

189 - 534
خریدا بھی نہیں گیا ہوتا، اور جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ جس وعدہ کا قانوناً التزام کرایا جاتا ہو اس کی حیثیت معاہدے کی ہوتی ہے، تو گویا اس معاہدے کے ذریعہ بینک ایساسامان صارف کو بیچ رہا ہے جوکہ ابھی خود بینک کے پاس موجود نہیں ، اور ایسی خرید وفروخت شرعاً جائز نہیں۔ ( دوسرا اعتراض) بینک کے (Units) خریدنے میں صارف کی طرف سے تاخیر کی صورت میں ’’صدقہ‘‘کا التزام: جیسا کہ مرابحہ اور اجارہ کی بحث میں یہ ذکر ہوا کہ کسی بھی مالی معاملہ میں ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اگر قرضدار جان بوجھ کر تاخیر کا مرتکب ہوا ہو تو اس پر مالی جرمانہ کے علاوہ کوئی اور سزا دی جاسکتی ہے، اور جہاں تک بات ہے صدقہ کی تو یہ دراصل مالی جرمانہ ہے اور قطعاً حرام ہے۔ لیکن مشارکہ متناقصہ میں صدقہ کا التزام نہایت حیران کن ہے، کیونکہ مروجہ مشارکہ میں صارف بینک سے (Units) خریدتے وقت ہر (Unit) کے لئے الگ معاہد ہ کرتا ہے جس میں ہر دفعہ الگ ایجاب و قبول ہوتا ہے کیونکہ بینک محصولہ سامان میں خود کو شریک تصور کرتا ہےگویا کہ وہ سامان میں حق ملکیت رکھتا ہے اور صارف نے جب بھی شراکت داری میں اپنا حصہ بڑھانا ہو تو وہ بینک سے ان (Units) کوخریدتا ہے جو کہ محصولہ سامان میں بینک کی حق ملکیت و شراکت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ (Units) بینک کی ملکیت ہیں اور ہر دفعہ صارف یکمشت ادائیگی کر کے ایک ایک (Unit) الگ الگ خریدتا ہے تو وہ شرعاً و قانوناً بینک کا قرضدار تو نہ ہوا، پھر تاخیر اور سبب تاخیر پر بحث کیوں ہو؟ پھر صارف پر صدقہ کا التزام چہ معنی دارد؟ اور اگر بینک صارف کو اپنا قرضدار سمجھتا ہے اور اس کی نظر میں ان اکائیوں (Units) کی قیمت صارف پر قرض ہے ، تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ صارف ان (Units) کا مالک ہے اور اب اس نے صرف ان کی قیمت ادا کرنی ہے، اگر ہم اس بات کو تسلیم کریں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ پھر بینک ان (Units) کا کرایہکیوں وصول کرتا ہے؟ ، وہ تو حق ملکیت وحق شراکت ہی نہیں رکھتا کہ اپنے حصہ کو استعمال کرنے پر صارف سے کرایہ کا تقاضا کرے ؟۔ الغرض یہ کہ صدقہ کا التزام اور اس کی منطق مرابحہ اور اجارہ میں تو پھر کسی حد تک معقول نظر آتی ہے اگرچہ شرعاً وہ ناجائز ہی سہی، لیکن مشارکہ متناقصہ میں تو صدقہ کا التزام دائرہ معقولیت سے بھی خارج
Flag Counter