Maktaba Wahhabi

85 - 442
٭ اِلیٰ کے صلہ کے ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ قصد وارادہ کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ﴾ ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔‘‘ ٭ علیٰ کے صلہ ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ علو وارتفاع کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ ’’رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘ بعض سلف کا یہ مذہب بھی ہے کہ استواء کا لفظ اِلیٰ اور عَلیٰ دونوں کے ساتھ استعمال ہونے کی صورت میں ارتفاع وعلو کے معنی میں ہوتا ہے، جیسا کہ بعض کا مذہب یہ ہے کہ عَلیٰ کے ساتھ استعمال کی صورت میں یہ صعود اور استقرار کے معنی میں ہوتا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ارشاد باری تعالیٰ: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ کی تفسیر خارجہ بن مصعب سے اپنی کتاب (الصواعق ) میں یہ نقل کی ہے کہ یہاں استواء کا لفظ بیٹھنے کے معنی میں ہے۔ [1] انہوں نے کہا ہے کہ استواء دراصل بیٹھنے ہی کو کہتے ہیں۔ بیٹھنے کا ذکر اس حدیث میں بھی واردہوا ہے، جسے امام احمد نے بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً بیان کیا ہے۔ واللّٰہ اعلم سوال ۳۳: فضیلۃ الشیخ! آپ نے اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ اس سے عرش پر وہ علو خاص مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کے جلال وعظمت کے شایان شان ہے۔ ازراہ کرم اس کی کچھ اور مزید وضاحت فرما دیں؟ جواب :ہم نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے تو یہ عرش پر اس طرح کے علو خاص سے تعبیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کے شایان شان ہے۔ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ ایک ایسا علو ہے جو عرش ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ اس طرح کا علو عام نہیں جو ساری مخلوقات کے لیے ہو، اس لیے ہمارا یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ وہ مخلوقات پر مستوی ہے یا وہ آسمان پر مستوی ہے یا وہ زمین پر مستوی ہے، حالانکہ وہ اپنی ان ساری مخلوقات سے بلند و بالا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عرش سے بلند ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہے۔ استواء مطلق علو کی نسبت خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر استواء، اس کی ان فعلی صفات میں سے ہے جو اس کی مشیت کے ساتھ متعلق ہیں، جب کہ علو اس کی ان ذاتی صفات میں سے ہے جو اس سے الگ نہیں ہوسکتیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی حدیث نزول کی شرح میں اسی طرح صراحت فرمائی ہے، جس طرح ہم نے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد عرش پر مستوی ہوا، تو کیا اس سے پہلے وہ عرش پر مستوی نہ تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ استواء سے مراد علو خاص ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی چیز پر مستوی ہو، وہ اس سے بلند بھی ہے لیکن ہر وہ شخص جو کسی چیز سے بلند ہو، وہ اس پر مستوی نہیں ہوتا، لہٰذا ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے عالی ہو اس کے لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس پر مستوی ہے یا اسے اس پر استواء حاصل ہوگیا ہے لیکن ہر وہ چیز جو کسی چیز پر مستوی ہوگی، اسے اس پر علو بھی حاصل ہوگا۔‘‘[2] ہمارا بھی اس وقت بالکل یہی مقصود ہے۔
Flag Counter