Maktaba Wahhabi

73 - 442
ان میں سے پہلی مثال میں معیت امتزاج واختلاط کے معنی میں ہے، دوسری مثال میں کسی اختلاط کے بغیر جگہ اور عمل میں مشارکت کے معنی لئے گئے ہیں اور تیسری مثال میں مصاحبت کے معنی ہیں، خواہ جگہ یا عمل میں اشتراک نہ بھی ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ معیت کے معنی مضاف الیہ کی مناسبت سے مختلف ہواکرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت اس سے مختلف ہوگی جو مخلوق کی اپنے جیسی مخلوق کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس معیت میں امتزاج واختلاط کا امکان ہی نہیں اور جگہ میں مشارکت کا امکان بھی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہ بات ممتنع ہے۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اپنی مخلوق سے جدا اور بلند و بالا ہے، لہٰذا وہ آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہے کیونکہ وہ اپنے علم وقدرت، سلطنت سمع و بصر اور تدبیر وغیرہ کے ساتھ ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے جیسا کہ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، لہٰذا اگر کوئی مفسر معیت کی علم کے معنی میں تفسیر کرتا ہے تو وہ نہ اس کے تقاضے سے خارج ہے اور نہ اس کی تاویل سے، البتہ وہ شخص اسے تاویل سمجھے گا جو معیت کے معنی ہرحال میں امتزاج واختلاط اور جگہ میں مشارکت سمجھتا ہو اور یہ قاعدہ کلیہ بیان کیا جا چکا ہے کہ ہر حال میں معیت کے یہ معنی نہیں لئے جاسکتے ۔ یہ بات الگ ہے ان تینوں نصوص کی اس تاویل کے حوالے سے جو امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے نیز ان نصوص کا ان کی اپنی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو ابھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مفسر معیت کی علم کے معنی میں تفسیر کرتا ہے تو وہ اس کے بعض مقتضیات ہی کے ساتھ تفسیر کرنا سمجھا جائے گا، اسے اس معنی سے انحراف قرار نہیں دیا جاسکتا، جو اس کا تقاضا ہے۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے: ((اِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَرِّفُہُ حَیْثُ یَشَائُ))( صحیح مسلم، القدر، باب تصریف اللّٰه تعالی القلوب کیف شاء، ح: ۲۶۵۴۔) ’’بنی آدم کے تمام دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں وہ انہیں جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔‘‘ اہل سنت والجماعت کے ہاں اس میں تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے انگلیوں کا جو اثبات ہے، وہ بجاہے کیونکہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی انگلیاں ہیں اور اس طرح ہیں جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہیں۔ ہمارے دلوں کے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ دلوں کو مس کر رہی ہیں۔ جس طرح بادل آسمان وزمین کے درمیان مسخر ہے اور وہ آسمان کو چھوتا ہے نہ زمین کو، اس طرح بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں اور اس سے ایک دوسرے کو چھونا لازم نہیں آتا۔ باقی رہی یہ حدیث: ((اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ یَمِیْنُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ)) (ضعیف: مسند الفردوس للدیلمی: ۲/۱۵۹، حدیث: ۲۸۰۷، ۲۸۰۸ وتاریخ بغداد: ۳۲۸ الضعیفۃ: ۲۲۳۔) ’’حجر اسود زمین میں اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔‘‘ اس کے بارے میں شیخ امام الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جو ثابت
Flag Counter