Maktaba Wahhabi

60 - 442
((اَتَونِی شُعْثًا غُبْرًا ضاحین من کل فج عمیق)) (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ(۴۳۶)۔ میرے بندے میری جناب حاضری دینے کی غرض سے پراگندہ حال اور پراگندہ بال قربانی کا جانور ساتھ لئے ہوئے دوردرزعلاقوں سے چل کر آئے ہیں۔ قبولیت دعا کے یہ سارے اسباب شخص مذکور کے کچھ کام نہ آئے کیونکہ اس کا کھانا حرام کا، لباس حرام کا اور حرام ہی کے ساتھ اس کی پرورش ہوئی تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟‘‘ اجابت دعا کی یہ شرائط جب بندے کے پاس پوری نہ ہوں تو قبولیت اس سے کوسوں دور ہو جاتی ہے۔ اگر شرائط پوری ہوں اور اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کی دعا کو قبول نہ فرمائے تو اس میں کوئی ایسی حکمت پنہاں ہوتی ہے، جسے اللہ ہی جانتا ہے مگر دعا کرنے والا نہیں جان سکتا۔ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کر لو اور وہ تمہارے لیے بری ہو، جب قبولیت دعا کی ساری شرطیں موجود ہوں، مگر اللہ تعالیٰ دعا قبول نہ فرمائے تو وہ یا تو اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ کسی بڑی برائی کو اس سے دور فرمانا چاہتا ہے یا اس دعا کو اس کی خاطر قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی وجہ سے وہ اسے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرما دے کیونکہ دعا کرنے والے نے جب دعا کی ساری شرطیں بھی پوری کر دیں، مگراللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہ فرمایا اور کسی بڑی برائی کو بھی اس سے دور نہ فرمایا تو ممکن ہے کہ یہ عدم قبولیت کسی حکمت کی وجہ سے ہو، وہ حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دوگنا اجر وثواب عطا فرمانا چاہتا ہو، ایک دعا کرنے کا اجر و ثواب اور دوسرا عدم قبولیت کی مصیبت کا اجر و ثواب بلاشبہ اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے عظیم الشان اور اکمل وأتم ترین اجر و ثواب سے سرفراز فرما ئے گا۔ پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ اس کی دعا قبول ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ بات بھی دعا کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُسْتَجَابُ لَاحَدِکُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ، قالوا کیف یعجل یارسول اللّٰه ؟ قال: یَقُولُ: دَعَوْت ودعوت ودعوتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ))( صحیح البخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل، ح: ۶۳۴۰ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان انہ یستجاب للداعی مالم یعجل… ح: ۲۷۳۵۔) ’’تم میں سے اس شخص کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ جلدی بازی سے کام نہ لے (صحابہ کرام نے عرض کیا دعاء میں جلد بازی کا کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ فرمایا کہ بندہ یہ کہتے پھرے کہ میں نے دعاکی میں نے دعاء کی میں نے دعاء کی مگر میری دعا تو قبول ہی نہ ہوئی۔‘‘ لہٰذا انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی وہ قبولیت میں تاخیر سمجھتے ہوئے دعا سے مایوس ہو جائے اورحسرت وندامت کا اظہار کرنے لگے پھرمایوس ہوکر دعاء ترک کر دے، بلکہ اسے چاہیے کہ اصرار و گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کی جانے والی ہر دعا عبادت اور تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ دعا سے اجر وثواب میں بھی اضافہ ہو تا رہتا ہے، لہٰذا اے بھائی! اپنے تمام عام ، خاص، مشکل اور آسان امور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہا کرو۔ اگر دعا کا عبادت ہونے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہ بھی ہوتا تو بھی آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر وقت دعا کرتا رہے۔ واللّٰہ الموفق
Flag Counter