Maktaba Wahhabi

46 - 442
((یَأْتِی الشَّیْطَانُ اَحَدَکُمْ فَیَقُوْلُ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ حَتَّی یَقُوْلَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَاِذَا بَلَغَہٗ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ)) (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، ح: ۳۲۷۶ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان، ح: ۱۳۴۔) ’’تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آکر کہتا ہے کہ (مخلوق کو) اس طرح کس نے پیدا کیا ہے؟ اس طرح کس نے پیدا کیا ؟ حتیٰ کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے اور رک جائے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے عرض کیا: میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانے سے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ میں جل کر کوئلہ ہو جاؤں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی رَدَّکیدہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ))( سنن ابی داود، الادب، باب فی رد الوسوسۃ، ح: ۵۱۱۲۔) ’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے معاملے کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الایمان میں تحریرفرماتے ہیں کہ مومن شیطانی وسوسوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کفر یہ اندازکے وسوسے ہوتے ہیں جن سے اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے، جیسا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا: یا رسول اللہ! ہم میں کسی ایک کے دل میں اگر ایسا خیال بھی آجاتا ہے کہ اسے زبان پر لانے کے بجائے اس کے نزدیک یہ باتکہیں زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر گر جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ((ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ)) صحیح مسلم، الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان… ح: ۱۳۲۔) ’’یہ تو خالص ایمان ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: (صحابی نے عرض کیا کہ) وہ اسے زبان پر لانا بہت گراں محسوس کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الحمد للّٰه الذی رد کیدہ الی الوسوسۃ)) ( سنن ابی داود، الادب، باب فی رد الوسوسۃ، ح: ۵۱۱۳۔) ’’سب تعریف اس اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اس کے مکرو فریب کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ہے۔‘‘ یعنی اس طرح کا وسوسہ بندے کی دلی کراہت وناپسندیدگی کے باوجودپیداہونا، پھراس کا اسے اپنے دل سے دور کرنے کی کوشش بھی کرتا خالص ایمان ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی مجاہد کے پاس کوئی دشمن آجائے اور وہ اسے دور ہٹاتے ہوئے اس پر غالب آجائے تو یہ عظیم جہاد ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے فرمایا ہے: ’’یہی وجہ ہے کہ طالب علم اور عبادت گزار لوگوں کو ایسے وسوسے اور شبہات پیش آتے ہیں، جو دوسرے لوگوں کو پیش نہیں آتے کیونکہ دوسرے لوگ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے راستے پر چلتے ہی نہیں بلکہ وہ تو اپنے رب سے غافل ہو کر خواہشات نفس کے پجاری بن جاتے ہیں اور یہی شیطان کا مطلوب و مقصود ہے، لیکن اس کے برعکس جو لوگ علم وعبادت کے ساتھ اپنے رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، دراصل شیطان ان کا دشمن ہے اور وہ
Flag Counter