Maktaba Wahhabi

402 - 442
بھی اعتکاف کا حکم باقی رہا منسوخ نہیں ہوا۔[1] صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اعتکاف کیا فرماتی ہیں: ((أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہِ))( صحیح البخاری، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر، ح: ۲۰۲۶، وصحیح مسلم، الاعتکاف باب اعتکاف العشر الاواخر من رمضان، ح: ۱۱۷۲۔) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف فرمایا۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف فرمایا، پھر فرمایا: ((اِنِّیْ اعْتَکَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ أَلْتَمِسُ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃَ (یَعْنِی لَیْلَۃَ الْقَدْرِ) ثُمَّ اعْتَکَفْتُ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ، ثُمَّ اَتَیْتُ فَقِیْلَ لِی: اِنَّہَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ اَحَبَّ مِنْکُمْ اَنْ یَعْتَکِفَ فَلْیَعْتَکِفْ))( صحیح البخاری، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر، ح: ۲۰۲۷، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل لیلۃ القدر والحث علی طلبہا، ح: ۱۱۶۷ واللفظ لہ۔) ’’میں نے اس رات (یعنی لیلۃ القدر) کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا، پھر میں اعتکاف کے لیے جب آیا تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ رات تو آخری عشرے میں ہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہیے وہ اعتکاف کر لے۔‘‘ پس لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ علماء میں سے کسی نے اعتکاف کے مسنون ہونے کے بارے میں اختلاف کیا ہو گویا کہ اعتکاف نص اور اجماع کی روشنی میں مسنون ہے۔ اعتکاف ایسی مساجد میں ہونا چاہیے جن میں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾(البقرۃ: ۱۸۷) ’’اس حال میں تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو‘‘ کے عموم کا یہی تقاضا ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جس میں جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہو تاکہ اسے نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد سے نکلنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اگر اس نے کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کر لیا جس میں جمعہ کا اہتمام نہیں، تو پھر اس کے لیے دوسری مسجد میں نماز جمعہ کے لیے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ اللہ عزوجل کی اطاعت و بندگی، نماز تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی میں مشغول رہے کیونکہ اعتکاف سے یہی مقصود ہے۔ ساتھیوں سے تھوڑی سی بات چیت کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں، خصوصاً جب کہ اس میں کوئی فائدہ بھی ہو۔ معتکف کے لیے جماع اور اس کے مقدمات حرام ہیں اور مسجد سے نکلنے کی فقہاء نے حسب ذیل تین اقسام بیان کی ہیں:
Flag Counter