Maktaba Wahhabi

37 - 442
سے بری الذمہ ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ﴾ (الانعام: ۱۵۹) ’’جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں۔‘‘ اتفاق واتحاد اور دلوں کی الفت ومحبت فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت کا نمایاں وصف ہے۔ اگر ان میں اجتہادی امور کی بنیادپر میں باہم اختلاف واقع ہو جائے تو یہ لو گ اجتہاد کی بنیادپر اختلاف کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے کینہ حسد، عداوت یا بغض نہیں رکھتے بلکہ اجتہادی اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں حتیٰ کہ وہ ایسے امام کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے ہیں جو اجتہادی صورت میں ان کے نزدیک بے وضو گرداناجاتا ہو مگر بربنائے اجتہادوہ امام اپنے آپ کو باوضو سمجھتا ہے، مثلاً: ان میں سے اگر کوئی شخص کسی ایسے امام کے پیچھے نماز اداکرے جس نے اونٹ کا گوشت کھایا ہو اور اس امام کی رائے میں اونٹ کا گوشت کھانا ناقض وضو نہ ہو جبکہ مقتدی کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانا ناقض وضو ہو، تو اس امام کے پیچھے اس کی نماز صحیح ہوگی۔ البتہ انفرادی صورت میں اس کی اپنی نماز صحیح نہیں ہوگی کیونکہ اس کا خیال ہے کہ وہ اپنے موقف میں صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے اجتہادکی بنیادپر باوضو نہیں ہے یہ اختلاف ایک ایسے امر میں ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش ہے، اس لئے اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ان دونوں اختلاف کرنے والوں میں سے ہر ایک نے اس دلیل کی اتباع کی ہے جس کا اتباع کرنا واجب تھا اور اس سے اعراض کرنا ان کے لئے جائز نہ تھا اور ان کا خیال یہ ہے کہ ان کا کوئی بھائی اگر کسی عمل میں اتباع دلیل کی وجہ سے ان کی مخالفت کرے تو حقیقت میں وہ ان کی موافقت ہی کرتا ہے کیونکہ یہ تو خود اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ دلیل کی اتباع کی جائے، خواہ وہ کہیں سے بھی لی گئی ہو، لہٰذا اگر وہ کسی دلیل کی موافقت کی وجہ سے ان کی مخالفت کرتا ہے تو درحقیقت اس کو موافقت کرناہی گردانا جائے گا کیونکہ وہ اس طرف جا رہا ہے جس کی طرف اس کے بھائی بندے دعوت دے رہے ہیں اور جس کی طرف اس کے بھائی رہنمائی کافریضہ انجام دے رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے دامن سے وابستگی اختیار کی جائے۔ بہت سے اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ اس طرح کے امور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اختلاف رونما ہوگیا تھا حتیٰ کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی ایسا ہوا مگر آپ نے ان میں سے کسی پر سختی نہ کی، مثلاً: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ احزاب سے لوٹے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بنو قریظہ کی سرکوبی کے لیے نکلنے کو کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس مہم کے لیے روانہ کرتے ہوئے فرمایا: ((لَا یُصَلِّیَنَّ اَحَدٌ الْعَصْرَ اِلاَّ فِی بَنِی قُرَیْظَۃَ)) صحیح البخاری، کتاب الخوف، باب صلاۃ الطالب والمطلوب… ح: ۹۴۶ وصحیح مسلم، الجہاد والسیر، باب المبادرۃ بالغزو… ح: ۱۷۷۰ بلفظ: لَا یُصَلِّیَنَّ اَحَدٌ الظُّہْرَ۔ ’’ہر شخص نماز عصر بنی قریظہ (کے محلے) میں پہنچ کر ہی ادا کرے۔‘‘ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ سے نکل کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا، کچھ لوگوں نے نماز عصر کو مؤخر کر دیا اور انہوں نے اسے بنو قریظہ ہی میں وقت ختم ہو جانے کے بعد ادا کیا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ہر شخص نماز عصر بنو قریظہ ہی میں ادا کرے۔‘‘ اور کچھ لوگوں نے نماز کو راستے میں وقت پر ادا کر لیا اور کہا کہ رسول اللہ
Flag Counter