Maktaba Wahhabi

303 - 442
((سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی)) (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ح: ۸۷۱۔) ’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند و برتر ہے۔‘‘ ((سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی)) (صحیح البخاری، الاذان، باب الدعاء فی الرکوع، ح:۷۹۴۔) ’’اے اللہ! اے ہمارے پروردگار ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، اے اللہ! تو مجھے معاف فرما دے۔‘‘ ((اَللّٰہُمَّ لَکَ سَجَدْتُّ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ)) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ودعائہ باللیل، ح: ۷۷۱۔) ’’اے اللہ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا اور تیرے ساتھ ایمان لایا یقینامیں تیرا فرمانبردار ہوں۔ میرا چہرہ اس ذات پاک کے آگے سجدہ ریز ہوا جس نے اسے پیدا فرمایا ہے اور اس کے کان اور آنکھیں بنائے ہیں اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جو بہترین خالق ہے۔‘‘ ((اَللّٰہُمَّ اکْتُبْ لِی بِہَا عِنْدَکَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّی بِہَا وِزْرًا وَاجْعَلْہَا لِی عِنْدَکَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْہَا مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَہَا مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ)) (جامع الترمذی، الجمعۃ، باب ماجاء ما یقول فی سجود القرآن، ح: ۵۷۹۔) ’’اے اللہ! میرے اس سجدے کی وجہ سے اپنے ہاں اجر و ثواب لکھ لے اور اس کی وجہ سے مجھ سے (میرے گناہوں کا) بوجھ اتار دے اور اسے میرے لیے اپنے ہاں ذخیرہ بنا دے اور اس سجدے کو میری طرف سے اس طرح قبول فرما جس طرح تو نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کے سجدے کو شرف قبولیت سے نوازا تھا۔‘‘ پھر سجدے سے سر اٹھائے، اس میں تکبیر اور سلام کی ضرورت نہیں۔ اگر امام نماز پڑھاتے ہوئے آیت سجدہ کی تلاوت کرے تو اس کے لیے واجب ہے کہ سجدہ کو جاتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت تکبیر (اللہ اکبر) کہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کرنے والوں نے ذکر کیا ہے کہ آپ جب بھی سر جھکاتے اور اٹھاتے تو اللہ اکبر کہا کرتے تھے۔[1] نماز کے سجدہ اور سجدہ تلاوت سب کی کیفیت اسی طرح ہوتی تھی۔ بعض لوگ نماز میں سجدے کو جاتے وقت تو تکبیر کہتے ہیں مگر سجدے سے اٹھتے وقت تکبیر نہیں کہتے، لیکن سنت یا اہل علم کے اقوال سے مجھے اس کی کوئی دلیل معلوم نہیں ہے۔ سائل نے جو یہ کہا ہے کہ کیا سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت شرط ہے، تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض نے طہارت کو ضروری قرار دیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ شرط نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بغیر طہارت کے سجدہ تلاوت کر لیا کرتے تھے لیکن میری رائے میں زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ سجدہ با وضو کیا جائے۔
Flag Counter