Maktaba Wahhabi

177 - 442
اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے لیکن دین کو ہاتھ سے جھوڑ کر نہیں۔ جہاں تک ان کافر امتوں کا تعلق ہے تو اپنی اصل کے اعتبار ہی سے کافر ہیں اورجس دین کے یہ دعوے دار ہیں وہ دین ہی سرے سے باطل ہے دراصل ان کا دین اور الحاددونوں برابر ہیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ﴾ (آل عمران: ۸۵) ’’اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کو دیگر کفار کی نسبت اگرچہ کچھ امتیاز حاصل ہے، لیکن آخرت کے اعتبار سے ان میں اور دیگر کفار میں کوئی فرق نہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا تھا: ’’کہ اس امت کا جو یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سنے اور پھر میرے لائے ہوئے دین کی پیروی نہ کرے تو وہ جہنمی ہوگا۔‘‘[1] بہرحال یہ تمام کے تمام لوگ کافر ہیں، خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی اور وہ بھی جو ان کی طرف منسوب نہ ہوں، یعنی عقیدۂ توحید کے علاوہ کسی اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں۔ جہاں تک بارشوں وغیرہ کی کثرت کا تعلق ہے، تو یہ صورت انہیں ابتلاء وآزمائش کی شکل میں حاصل ہوتی ہے اور پھر ان کے حصے کی اچھی اچھی چیزیں انہیں دنیا ہی میں مل جاتی ہیں جب کہ آخرت میں ان کے لیے کچھ نہ ہوگا جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے آپ کو دیکھا کہ چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے آپ کے جسم اطہر پر نشان پڑ چکے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول! ایرانی و رومی تو عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ اس حال میں ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الحَيَاةِ الدُّنْيَا)) (صحیح البخاری، المظالم، باب الغرفۃ والعلیۃ المشرفۃ… ح:۲۴۶۸۔) ’’اے عمرؓ! یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کی اچھی چیزیں دنیا ہی میں جلدی سے دے دی گئی ہیں کیا تم کو یہ بات پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت کی سرخروئی و سعادت مندی۔‘‘ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ، آپ نے فرمایا : ((يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْيَا؟))(صحیح مسلم ،الطلاق، باب فی الایلاء واعتزال النساء،ح: ۱۴۷۹) ’’اے خطاب کے بیٹے ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں کہ ہمیں آخرت مل جائے اور انہیں دنیا۔‘‘ پھر ان ملکوں میں قحط، آفتیں، زلزلے اور ہلاکت خیز آندھیاں بھی تو آتی رہتی ہیں جن کی خبریں ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے دنیا بھر میں نشر ہوتی رہتی ہیں، ہمیںلگتا ہے کہ سوال کرنے والا نابینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بصیرت سے محروم کردیا ہے اور وہ واقعہ اور حقیقت کو قطعاً نہیں جانتا۔ میری نصیحت یہ ہے کہ اسے فوراً ان تصورات سے توبہ کرنی چاہیے قبل اس کہ اسے اچانک موت آجائے اور وہ اس حال میں اپنے رب کی طرف لوٹ جائے۔ یہ حقیقت کو اچھی طرح اس کے ذہن نشیں ہوجانا چاہئے کہ ہمیں عزت،
Flag Counter