Maktaba Wahhabi

165 - 442
بھی موجود ہے جبکہ شرعی عیدیں اہل اسلام کے نزدیک مشہور ومعروف ہیں اور وہ ہیں: (۱)عیدالفطر (۲) عیدالاضحیٰ اور (۳)ہفت روزہ عید یعنی جمعۃ المبارک۔ ان تین عیدوں کے سوا اسلام میں کسی اور عید کا کوئی تصور نہیں، لہٰذا ان کے علاوہ جو عیدیں بھی ایجاد کی گئی ہیں وہ سب مردود اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت میں باطل ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)) (صحیح البخاری، کتاب العلم، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، ح:۲۶۹۷ وصحیح مسلم، الاقضیۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ، ح:۱۷۱۸۔) ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘ یعنی اسے اس کے منہ پر دے مارا جائے گا اور اللہ کے ہاں وہ مقبول نہ ہوگی۔ ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ)) (صحیح مسلم، الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ح:۱۷۱۸۔) ’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘ جب یہ بات واضح ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا کہ سوال میں مذکور اور ’’عیدالام‘‘ (ماں کی عید) کے نام سے موسوم عید جائز نہیں ہے، لہٰذا اس میں عید جیسے شعائر، مثلاً: خوشی ومسرت کا اظہار اور تحائف وغیرہ دینا جائز نہیں۔ مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے دین کو عزت کا ذریعہ سمجھے، اسی کو باعث فخر جانے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کرے اور اس دین قیم سے وابستہ ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے، اس میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ مسلمان کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اندھا مقلد بن کر ہر کس وناکس کے پیچھے نہ چلے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تقاضے کے مطابق مضبوط بنائے تاکہ وہ لوگوں کا متبوع بنے ان کا تابع نہ بنے۔ لوگوں کے لیے نمونہ بنے، ان کو اپنے لیے نمونہ نہ بنائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت تمام اعتبار سے جامع ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: ۳) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے۔‘‘ ماں کا اس سے کہیں زیادہ حق ہے کہ سال میں صرف ایک دن اس کے نام کیا جائے بلکہ ماں کا اپنی اولاد پر حق تو ہے کہ وہ اس کا پورا پورا خیال رکھیں اس کا ادب واحترام بجا لائیں، اس کی ضروریات کو پورا کریں اور ہر جگہ اور ہر وقت اس کی اطاعت وفرمانبرداری اپنا شیوہ بنالیں بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی لازم نہ آتی ہو۔ سوال ۹۰: بچوں کی ولادت یا شادی کی مناسبت سے عید (سالگرہ) منانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اسلام میں ہفت روزہ عید ’’جمعۃ المبارک‘‘ رمضان کے بعد شوال کی یکم تاریخ کو ’’عید الفطر‘‘ اور دس ذوالحجہ کو ’’عیدالاضحیٰ‘‘
Flag Counter