Maktaba Wahhabi

153 - 442
پروردگار! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں، معاف فرما اور مومنوں کے لیے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) پیدا ہونے نہ دے۔ اے ہمارے پروردگار! تو بڑا شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ وہ شخص جو فوت ہوگیا ہو، وہ خود کسی کو کوئی نفع نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ خود ایک بے جان لاشہ ہے۔ وہ اپنی یا کسی کی تکلیف کو دور کرنے کی قطعاً کوئی استطاعت نہیں رکھتا اور نہ اپنے آپ کو یا کسی کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے، لہٰذا وہ اس بات کا محتاج ہے کہ اس کے مسلمان بھائی اسے نفع پہنچائیں وہ خود اپنے مسلمان بھائیوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ دوسری قسم: اصحاب قبور میں سے دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے افعال ایسے فسق و فجور تک پہنچ گئے ہوں جن کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہو، مثلاً: وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اولیاء ہیں، غیب جانتے ہیں، بیماری سے شفا عطا کر سکتے ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے نفع پہنچاتے ہیں، جو حسی اور شرعی طور پر معلوم نہیں، تو ایسے لوگوں کا خاتمہ کفر پر ہوتاہے، ان کے لیے دعا کرنا یا رحمۃ اللہ علیہ کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ، وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَہَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ، ﴾ (التوبۃ: ۱۱۳۔ ۱۱۴) ’’پیغمبر اور مسلمانوں کے شایان نہیں جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں، تو ان کے لیے بخشش کی دعاء مانگیں، گو وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اور ابراہیم(علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا، جو وہ اس سے کر چکے تھے، لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کا پکا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔‘‘ ایسے لوگ کسی کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع اور نہ ہی کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے امیدیں وابستہ کرے۔ اگر ایسا ہو کہ کسی شخص کو ان کی کچھ کرامات نظر آتی ہوں، مثلاً: یہ کہ اس نے ان کی قبروں میں نور دیکھا ہو یا ان کی قبروں سے اچھی خوشبو وغیرہ محسوس کی ہو جب کہ ان کے بارے میں مشہور یہ ہو کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، تو یہ باتیں ابلیس کا دھوکہ اور فریب ہوں گی تاکہ وہ لوگوں کو ان قبروالوں کی وجہ سے فتنے میں مبتلا کر دے۔ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے وابستہ نہ ہوں، کیونکہ اللہ ہی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، تمام امور کا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی مجبور ومضطر کی دعا سن سکتا ہے نہ اس کی تکلیف دور کر سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْئَرُوْنَ﴾ (النحل:۵۳) ’’اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں، وہ سب اللہ کی طرف سے ہیں، پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کے آگے تم نالہ وفریاد کرتے ہو۔‘‘ مسلمان بھائیوں کو میری یہ بھی نصیحت ہے کہ دین کے بارے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی بھی تقلید یا اتباع نہ کریں، کیونکہ
Flag Counter