Maktaba Wahhabi

150 - 442
کام ضرور کروں گا، اللہ کی عزت کی قسم! میں یہ معاملہ ضرور کروں گا۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کے ساتھ قسم کھائی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور وہ یعنی کلام باری تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی بیک وقت ذاتی فعلی صفت ہے۔ اپنے اصل کے اعتبار سے کلام کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اس صفت سے ہمیشہ موصوف رہی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موصوف رہے گی کیونکہ کلام تو کمال ہے اور اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں سے ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ سے متکلم رہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے متکلم رہے گا اور جس کا وہ ارادہ فرمائے اسے کرتا رہے گا اور اپنی مستقل حیثیت کے اعتبار سے کلام اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت کلام فرماتا ہے جب وہ چاہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا اَمْرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ، ﴾(یٰسٓ: ۸۲) ’’اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کی انجام دہی کاارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں قول کو ارادے کے ساتھ جوڑدیا گیا ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کے ارادہ و مشیت کے ساتھ جڑاہواہے۔ اس کے بارے میں اور بھی بہت سے نصوص موجود ہیں۔ جہاں تک کلام باری تعالیٰ کے انفرادی طور پر وقوع کا تعلق ہے، تو وہ اس کی حکمت کے تقاضے کے مطابق ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس تفصیل سے ہمیں معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا قول باطل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کاکلام ازلی ہے اور ممکن نہیں کہ وہ اس کی مشیت کے تابع ہو اور اس کے قائم بنفسہٖ ہونے کے بھی یہی معنی ہیں، لہٰذا وہ کوئی ایسا کلام نہیں ہے جسے وہ سن لے جس سے اللہ تعالیٰ کلام فرما رہا ہو۔‘‘ یہ قول باطل ہے کیونکہ درحقیقت ایسا کہنے والے نے اللہ تعالیٰ کے سنے جانے والے کلام کو مخلوق بنا کررکھ دیا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب میں جو ’’تِسْعِیْنِیَّۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے، اس قول کو نوے(۹۰) وجہ سے باطل قرار دیا ہے۔ جب یہ مصحف کلام اللہ پر مشتمل ہے اور کلام اللہ، اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو پھر قرآن مجید کی قسم کھانا جائز ہے، مثلاً: انسان یہ کہے کہ قرآن مجید کی قسم! اور اس سے اس کا مقصود کلام اللہ کی قسم کھانا ہو اس بارے میں فقہائے حنابلہj سے نصاصراحت موجود ہے کہ ایسی قسم کھانا جائز ہے۔ تاہم افضل یہ ہے کہ انسان ایسی قسم کھائے جس سے سامعین تشویش میں مبتلا نہ ہوں، مثلاً: اس طرح قسم کھائے کہ اللہ کی قسم! رب کعبہ کی قسم! اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یا اس طرح کی دوسری قسمیں کھائے جن کے سننے سے عام لوگوں کو کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی اور وہ تشویش میں مبتلا نہیں ہوتے، اورلوگوں سے ایسے انداز میں ہی گفتگو کرنا زیادہ بہتر ہے جو عرفا عام ہو اور جس سے انہیں اطمینان قلب نصیب ہوتا ہو۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ قسم اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات ہی کی کھائی جاتی ہے تو پھر کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ غیر اللہ کی قسم کھائے۔ نبی یا جبرئیل یا کعبہ یا مخلوقات میں سے کسی چیز کی بھی قسم کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللّٰہِ اَوْ لِیَصْمُتْ)) (صحیح البخاری، الشہادات، باب کیف یستحلف؟ ح: ۲۶۷۹ و صحیح مسلم، الایمان، باب النہی عن الحلف بغیر اللّٰه ، ح:۱۶۴۶۔) ’’جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔‘‘ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے:
Flag Counter