Maktaba Wahhabi

130 - 442
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (اللہ کے احکام) کھول کھول کر بتا دے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘ مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ اِذْ ہَدٰیہُمْ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ﴾ (التوبۃ:۱۱۵) ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کر دے جب تک ان کو وہ چیز نہ بتا دے جس سے وہ پرہیز کریں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ، اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلٰی طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَاوَ اِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ، اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْکِتٰبُ لَکُنَّآ اَہْدٰی مِنْہُمْ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَۃٌ﴾ (الانعام: ۱۵۵۔ ۱۵۷) ’’اور (اے کفر کرنے والو!) یہ (قرآن) ایک عظیم کتاب ہے، ہم ہی نے اسے اتارا ہے، (یہ) برکت والی ہے، سو تم اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے (اور یہ اس لیے اتاری ہے) کہ (تم یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں پر کتابیں اتری ہیں اور ہم ان کے پڑھنے سے (معذور اور) بے خبر تھے یا (یہ نہ) کہو کہ اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں کی نسبت کہیں سیدھے راستے پر ہوتے، سو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حجت علم اور بیان کے بعد ہی قائم ہوتی ہے۔ سنت سے اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَا یَسْمَعُ بِی اَحَدٌ مِّنْ ہٰذِہِ الْاُمَّۃ ۔ یعنی أمۃ الدعوۃ ۔ِ یَہُوْدِیٌ وَّلاَ نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِیْ اَرْسِلْتُ بِہِ اِلاَّ کَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ)) (صحیح مسلم، الایمان، باب، وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم … ح:۱۵۳۔) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی جان ہے! اس امت میں سے(مراد امت اجابت ہے) کوئی یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سنے، پھر فوت ہو جائے اور اس دین پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔‘‘ جہاں تک اہل علم کے کلام کا تعلق ہے تو المغنی: (۸/۱۳۱) میں ہے: ’’اگر وہ ایسے لوگوں میں سے ہے جو وجوب کو جانتا ہی نہیں، جیسے نو مسلم یا اس نے دارالاسلام کے سوا کسی اور جگہ پرورش پائی ہو یا شہروں اور اہل علم سے دور دراز کسی جنگل میں زندگی گزاری ہو تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’میرے ہم نشین میرے بارے میں اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ لوگوں س کو زیادہ تر اس بات سے منع کرتا ہوں کہ کسی معین شخص کی کفر، فسق یا معصیت کی طرف نسبت کی جائے الایہ کہ معلوم ہو جائے کہ اس پر ایسی حجت قائم ہوگئی
Flag Counter