علیہ،وقولا لہ واطلبا إلیہ، فأتیاہ فدخلا علیہ فتکلما، وقالا لہ فطلبا إلیہ فقال لھما الحسن بن علیّ،إنا بنو عبد المطلب قد أصبنا من ھذا المال، وإن ھذہ الأمۃ قد عاثت فی دمائھا قال فإنہ یعرض علیک کذا و کذا ویطلب إلیک ویسألک قال: فمن لی بھذا؟قالا: نحن لک بہ، فما سألھما شیأً إلا قالا نحن لک بہ، فصالحہ۔ فقال الحسن ولقد سمعت أبا بکرۃ یقول رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المنبر و الحسن بن علی إلی جنبہ وھو یقبل علی الناس مرۃ وعلیہ أخری ویقول:( إن ابنی ھذا سید، ولعلَّ اللّٰہ أن یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین) [1]
عورتوں، بچوں کی خبرگیری کرے گا۔ پھر معاویہ رضی اﷲعنہ نے قریش کے دو شخص جو بنی عبدشمس کی اولاد میں سے تھے عبد الرحمن ابن سمرۃ رضی اﷲعنہ اور عبد اللہ بن عامر بن کریز کو حسن رضی اﷲعنہ کے پاس بھیجا اورکہا ان کے پاس جاؤ اور صلح پیش کرو۔ان سے گفتگو کرو۔ اور جو کہیں وہ مان لو۔خیر یہ دونوں ان کے پاس گئے اور گفتگو کی اور صلح کے طلب گار ہوئے، حسن بن علی رضی اﷲعنہ نے فرمایا :ہم عبد المطلب کی اولاد ہیں اور ہم (خلافت کی وجہ سے )مال خرچ کرنے کے عادی بن چکے ہیں اور یہ لوگ خون خرابے کرنے میں طاق ہیں، (بغیر مال دیئے ماننے والے نہیں ) وہ کہنے لگے معاویہ رضی اﷲعنہ آپ کو اتنا اتنا مال دینے پر راضی ہے اور آپ سے صلح چاہتا ہے جو آپ چاہیں وہ منظور کرتا ہے حسن رضی اﷲعنہ نے فرمایا اس کی ذمہ داری کون لیتا ہے۔ان دونوں نے کہا ہم
|