قرآن وحدیث سے ان کے سامنے آجاتی ہے تو فوراً ان کا ذہن مخلوق کی طرف چلا جاتا ہے کہ یہ صفت تو مخلوق میں بھی پائی جاتی ہے تو اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کیلئے صفات ثابت کردیں تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے ساتھ مشابہ ہوجائے گا۔ اسلئے یہ لوگ اس موہوم تشبیہ کو بنیاد بناکر جس کو ان کے ناقص اذہان نے قبول کرلیا ہے، یا تو اللہ تعالیٰ کی ساری صفات کی نفی کرتے ہیں جیسے جہمیہ اور معتزلہ یا وہ صفات جو ان کی عقل اور قیاس کے مطابق ہیں ان کو تو حقیقۃ مانتے ہیں اور جو صفات ان کی ناقص عقل وقیاس کے مطابق نہیں ہیں ان کی تأویلیں کرتے ہیں جیسے اشاعرہ۔ یہ ہے ان لوگوں کا اصل منشأ مغالطہ صفات کے متعلق، جو اللہ تعالیٰ کی صفات کو (جو کہ نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں ) محض ایک ایسی موہوم تشبیہ کے سپرد کرتے ہیں جن کو ان کے ناقص اذہان نے قبول کرلیا ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدر ومنزلت اور شان وعظمت کما حقہ جانتے اور نصوص کتاب وسنت کا صحیح حق ادا کرتے تو یہ حقیقت ان کے سامنے کھل کر واضح ہوجاتی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مقصد ومقتضاء نہ تو تشبیہ ہے اور نہ ہی یہ کسی کے ذہن میں آسکتا ہے کیونکہ خالق کی صفات خالق کی شان وعظمت کے مطابق ہیں اورمخلوق کی صفات مخلوق کی شان کے مناسب اور انہی کی حیثیت کے مطابق ہیں تو تشبیہ کیسے ہوئی؟
منکرین و مأولین کے انکار و تأویل کے بطلان کیلئے قاعدے
اب ہم ان لوگوں کے نظریہ وعقیدہ کے بطلان کیلئے دو قاعدے بیان کرتے ہیں جن سے فریقین کے مذہب کے تار وپود بِکھرجائیں گے :
پہلا قاعدہ:
پہلا قاعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اسکی ذات کی طرح ہیں یعنی جسطرح اللہ تعالیٰ کی ایک حقیقی ذات ہے اور مخلوق کی ذوات کے مشابہ ومماثل نہیں تو اسی طرح اسکی حقیقی صفات ہیں جو مخلوق کی صفات کے مشابہ ومماثل نہیں ہیں،اب مثلاً
|