اور فرمایا :
﴿ وَھُوَ الَّذِیْ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَھُوَ أَھْوَنُ عَلَیْہِ ﴾[1]
’’اور وہی ذات ہے جس نے ابتداء ً پیدا کیا اور وہی دوبارہ پیدا کرے گی اور یہ اس کیلئے بہت آسان ہے‘‘
(۲)اﷲ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ:
اﷲتعالیٰ کی حکمتِ بالغہ وقوعِ قیامت کی مقتضی ہے کیونکہ اس دارِ دنیا میں ظالم ونافرمان لوگ بھی ہیں اور عادل ومحسن بھی، جب صورتِ حال یہ ہے تو یہ اس بات کی داعی ومقتضی ہے کہ اس دنیا کے فناء وانتہاء کے بعد ایک دوسرا عالم ہونا چاہیئے تاکہ وہاں ظالم ونافرمان کو اپنے ظلم اور نافرمانی کی سزا ملے اور عادل ومحسن کو اپنے عدل واحسان کا بدلہ ملے اور یہی عدل وانصاف کا تقاضاہے۔
(۳) وقوعِ قیامت کیلئے عدمِ مانع:
حقیقت یہ ہے کہ قیامت وبعث کے وقوع اور آنے میں کوئی ایسی چیز مانع نہیں جس کی عقل سلیم نفی کرے کیونکہ عقل اس چیز کی نفی کرتی ہے جو کہ محال اور ممتنع ہو مثلاً اجتماع ضدین جیسے کسی ایک چیز کا ایک ہی وقت موجود ومعدوم ہونا یا جس میں التقاء(ملنا) نقیضین ہو جیسے ظلمت ونور کا بیک وقت ایک جگہ میں موجود ہونا اور وقوع قیامت ویوم بعث پر ایمان لانے سے ان میں سے کوئی چیز لازم نہیں آتی۔
منکرین قیامت کا شبہ اور اس کا ازالہ
یوم بعث (قیامت کے دن) کا انکار کرنے والے محض اس بناء پر وقوع قیامت کا انکارکرتے ہیں کہ یہ غیر ممکن ہے کہ جب انسان مر کر ریزہ ریزہ ہوکر اس طرح مٹی بن جائے کہ اس کانام ونشان ہی ختم ہوجائے تو بھلا پھر وہ پہلے والا انسان بن کر کیسے اٹھے گا؟ یہ ہے ان کا اصل شبہ،مگر منکرین قیامت کا یہ شبہ (۱)شرعی(۲) حسی اور(۳) عقلی دلائل کے روسے باطل وبے بنیاد ہے۔
|