اور احسان وغیرہ کے ارکان کے متعلق سوال کئے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات کی تصدیق کرکے جب سیدنا جبریل علیہ السلام چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ] سے فرمایا:
.................أتدرون من السائل؟ قالوا۔ اللّٰہ ورسولہ أعلم، قال ہذا جبریل آتاکم یعلمکم أمردینکم [1]
کیا تم جانتے ہو یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ صحابہ ث نے عرض کیا، اﷲ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔
ھ:ہر زمانے کے مسلمانوں کا اجماع:
اور اسی طرح اربوں، کھربوں بلکہ بے شمار متبعین انبیاء و رسل علیہم السلام،اور مسلمانوں کا ہر زمان وہرمکان میں بغیر کسی شک و تردد کے فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا۔
عقلی دلائل
۱۔ فرشتوں کے وجود پر ایمان لانے کا عدم امتناع:
سب سے پہلے یہ کہ فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا محال اور عقل کے خلاف نہیں کیونکہ عقل اس چیز کو محال و ممتنع سمجھتی ہے، جو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو مستلزم ہو۔
الف۔اجتماع ضدین: یعنی وہ چیز یا تو اجتماع ضدین کو مستلزم ہو جیسے کسی چیز کا آن واحد (یعنی ایک وقت) میں موجود اور معدوم ہونا۔
ب۔ اجتماع نقیضین : یعنی وہ چیز اجتماع نقیضین کو مستلزم ہو جیسے مثلاً ظلمت (اندھیرا) اور نور کا ایک ہونا۔ اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لانے سے ان میں سے کوئی ایک خرابی بھی لازم نہیں آتی خصوصاً جب کہ فرشتوں کے وجود پر دلائل قطعیہ بھی موجود ہیں۔
۲۔ شیٔ کے اثر سے اسکے وجود پر دلیل پکڑنا:
سارے عقلاء کے ہاں یہ بات مسلم اور مانی ہوئی ہے کہ کسی بھی چیز کا اثر اس کے وجود پر دلیل ہے۔ تو ملائکہ کے وجود کے لئے بھی بہت سے آثار ہیں جو ان کے ثبوت کے مقتضی ہیں۔ مثلاً:
|