أو شیٔ فلیتحللہ منہ الیوم قبل أن لایکون دینار ولا درھم، إن کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وإن لم تکن لہ حسنات أخذ من سیئآت صاحبہ فحمل علیہ۔ [1]
اور چیز میں کیا ہوتو اسے چاہیئے کہ آج ہی اسے حلال کروالے اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جب نہ کوئی دینار ہوگا نہ درہم، اگر ظالم کے پاس کوئی نیک عمل ہوگا تو اسکے ظلم کے بقدر اس سے لے لیا جائیگا اور اگر اسکے پاس نیکیاں نہیں ہونگی تو مظلوم کے گناہ لیکر اس پر لاد دیئے جائیں گے‘‘
تیسری روایت میں ارشاد ہے:
عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن وکانت بینہ وبین أناس خصومۃ فی أرض فدخل علی عائشۃ، فذکر لھا ذلک فقالت یا أبا سلمۃ: إجتنب الارض فإن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ’’من ظلم قید شبر من الأرض طوقہ من سبع أرضین ‘‘[2]
ابو سلمۃ فرماتے ہیں کہ انکے اور چند لوگوں کے درمیان زمین کا کچھ جھگڑا تھا، انہوں نے اس بات کا تذکرہ حضرت عائشہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا: اے ابو سلمۃ زمین سے بچو کیونکہ نبی کریم ا نے فرمایا ہے جس نے ایک بالشت برابر زمین بھی بطورِ ظلم کے لے لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق بنا کر اسے پہنا دیا جائیگا۔
ج۔ اجماع:
میدانِ محشر میں انسان کے محاسبہ کرنے اور اسکو جزاوسزا ملنے پر انبیاء ورسل علیھم السلام سمیت تمام مسلمانوں کا ہرزمانہ میں اتفاق واجماع رہا ہے،جو ایک قطعی ویقینی دلیل ہے۔
|