پانچویں مقام پر فرمایا:
﴿ قُلْ أَیُّ شَیْئٍ أَکْبَرُ شَہَادَۃً قُلِ اللّٰہُ شَہِیْدٌ بِیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَأُوْحِیَ إِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ ﴾[1]
آپ کہئیے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون سی ہے ‘ آپ کہئیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ڈراؤں۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَآ إِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغَافِلِیْنَ﴾[2]
ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں ‘ اس قرآن کی وجہ سے جو ہم نے آپ پر اتارا۔ اور آپ قرآن سے پہلے بالکل بے خبر تھے۔
فصلِ سوم
ان کتابوں کی اخبار کی تصدیق کرنا
آسمانی کتابوں پر ایک تو اجمالی طور پر ایمان لانا ہے یعنی ان کے مجموعہ احکام اور جو کچھ ان میں ہے ان سب پر کلیۃً ایمان لانا فرض ہے اور دوسرا تفصیلی طور پر ان کتابوں کے ہر ہر جزئی اخباروواقعات کی تصدیق کرنا۔
۱۔ انبیاء اور امم سابقین کی اخبار :
جیسے مثلاًقرآن کریم کی اخبار کہ جس میں انبیاء و رسل علیہم السلام اور امم سابقین کی خبریں ہیں مثلاً حضرت آدم، حضرت نوح،حضرت ہود،حضرت صالح، حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ و عیسیٰ وغیرہم علیہم السلام اور انکی امتوں کی اخبار و واقعات کی تصدیق کرنا فرض و ضروری ہے کہ جن کو
|