Maktaba Wahhabi

323 - 318
’’بھائی ! مجھے میری غلطی اور زیادتی پر ملامت نہ کر، کیونکہ یہ سب کچھ تو تقدیر میں لکھا ہوا ہے‘‘تو کیا یہ جبری اپنے اوپر ظلم کرنے والے شخص کی حجت کو مان کر اسے چھوڑ دے گا؟ نہیں ہرگز نہیں۔بلکہ اس پر مقدمہ کرکے اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گا، جب وہ اپنے اوپر دوسرے کے ظلم کو تقدیر کی بناء پر قبول نہیں کرتا تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حقوق میں تجاوز وزیادتی کرکے کیسے تقدیر کو حجت بناسکتا ہے؟ قدریہ کا بیان جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ تقدیر کے مسئلے میں دو جماعتیں گمراہ ہوئی ہیں،اُن میں سے ایک جبریہ ہیں جن کے بارے میں اوپر کچھ گفتگوہوچکی ہے،دوسری جماعت قدریہ ہے، جس کے بارے ہم انتہائی اختصار سے کچھ عرض کرتے ہیں۔ چنانچہ معلوم ہونا چاہئے کہ قدریہ، تقدیر باری تعالیٰ کے منکرہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی تقدیر نہیں جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے پہلے سے مقرر ہو،اور نہ ہی انسان کے افعال میں اﷲتعالیٰ کی مشیئت وقدرت کا کوئی عمل دخل ہے،البتہ اﷲتعالیٰ انسان کی ذات وصفات کا خالق ہے مگر انسانوں کے افعال کا خالق نہیں بلکہ انسان خود اپنے افعال کا خالق ہے۔ گویا انکے ہاں دو خالق ہوئے، یہی وجہ ہے کہ حدیث میں قدریہ کو اس امت کا ’’مجوس‘‘(آتش پرست) قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ مجوسیوں کی طرح دو خالق کے قائل ہیں ایک اﷲتعالیٰ اور دوسرا انسان۔ چنانچہ صاحب شرح العقیدۃ الواسطیۃ تحریر کرتے ہیں : ’’ فرجحوا جانب الأمر والنھی وخصصوا النصوص الدالۃ علی عموم الخلق والمشیئۃ بما عدا ’’پس قدریہ نے امر ونہی کی جانب دیکھا اور ان نصوص کو دیکھا جس میں اﷲتعالیٰ کی خلق ومشیئت کا عموم تھا، ان کو خاص کرکے
Flag Counter