اگر کوئی جہمی یا معتزلی اللہ تعالیٰ کی صفت نزول کے متعلق ہم سے یوں کہے کہ تمہارے عقیدہ ونظریہ کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر رات کے ثلث اخیر میں آسمان دنیا میں جو نازل ہوتا ہے تو ذرا،اس نزول کی کیفیت بیان کیجئے کہ وہ نزول کیسے ہوتا ہے ؟تو ہم ان سے یوں کہیں گے کہ تم پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت بیان کرو کہ اسکی ذات کی کیا کیفیت ہے ؟ تو لا محالہ وہ یہی کہے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت کو نہیں جانتا تو ہم بھی اس کو یہی جواب دینگے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کیفیت نزول کو بھی نہیں جانتے کیونکہ صفت کی کیفیت کو جاننا موصوف کی کیفیت کے جاننے پر موقوف ہے کیونکہ صفت موصوف کا فرع اور اس کا تابع ہے جب تم اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت کو نہیں جانتے تو ہم سے اس کی کیفیت نزول کا مطالبہ کیوں کرتے ہو؟
اور یہی ضابطہ وقانون ہے اللہ تعالیٰ کی ساری صفات میں۔مثلا اگر کوئی منکر صفات ہم سے یہ کہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو سمیع وبصیر مانتے ہو؟ تو ہم کہیں گے بیشک اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے اورہمیں اسکے سمع وبصر پر کامل ایمان و یقین ہے اورجو اللہ تعالیٰ کے سمع وبصر پر ایمان نہیں لاتا، ہم اسے مسلمان ہی نہیں سمجھتے، اور پھر اگر وہ منکر صفات ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ چلو تم اپنے عقیدہ کے مطابق،اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر مانتے ہو تو ذرا، اسکے سمع وبصر کی کیفیت بیان کرو کہ اس کے سمع وبصر کی کیا کیفیت ہے ؟ تو ہم اس سے وہی کہیں گے جو ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ تم پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت بیان کرو کہ اس کی ذات کی کیفیت کیا ہے ؟ جو جواب تمہارا اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت کے بیان کرنے میں ہوگا وہی جواب ہمارا اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت کے بیان میں ہوگا۔
دوسرا قاعدہ :
یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات پر حکم یا کلام بعض دوسری صفات جیسا ہے یعنی ان میں یہ تفریق نہیں کہ کسی صفت کو تو حقیقت پر محمول کریں اور کسی دو سری کی
|